کالم و مضامین

کہا تھا نا گھس کر ماریں گے

تحریر: میاں افتخار رامے

بیوی غصّے پر کنٹرول نہ کرتے ہوئے اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی , اگر تم مرد ہو تو مجھےطلاق دو میں ایک سیکنڈ بھی اب تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اس کا شوہر خاموشی سے اس کی بات کو نظر انداز کر رہا تھا۔ بیوی نے پھر کہا تم مرد نہیں، اگر ہو تو مجھے طلاق دو۔ بالآخرث شوہر اٹھا اور کاغذ میں چند سطریں لکھ کر لفافے کے اندر رکھ کر اس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا ، جاؤ۔۔ فی امان اللّٰہ ۔۔ عورت نے جھٹ پٹ اپنا سامان اٹھایا اور میکے چل دی۔

ادھر میکے میں بیوی کو چند ہی دن گزرے تھے کہ اس کا دل گھبرانے لگا۔ ث ایک دن اس نے شوہر کو فون کیا اور رونے لگی کہ میں غلط تھی میں ایک ناقص العقل عورت ہوں مجھے معاف کر دو۔ شوہر نے جب دیکھا کہ عورت اس کے سامنے اپنی بے بسی اور دکھ کا اظہار کر رہی ہے تو اس نے کہا اچھا جاؤ، وہ لفافہ کھول کر دیکھو۔ وہ فوراً اٹھ کر دوڑی اور لفافہ کھول کر اس میں موجود کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔

اے میری پیاری بیگم زمیں پھٹ جائے یا آسمان ٹوٹ پڑے لیکن میں تمہیں کبھی طلاق نہیں دوں گا۔ تمہارے اور میرے درمیان جو بھی معاملات ہیں اس کا حل طلاق نہیں بلکہ ہمیں اپنا معاملہ اطمینان اور سکون سے بیٹھ کر سلجانا ہوگا ۔ ایسا ہی کچھ آج کل ہمارے سیاستدانوں کے درمیان بھی چل رہا ہے۔

ملک میں انتخابات کے حوالے سے کورٹ کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کے حوالےسے زور دینے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی دو سے تین نشتیں ہوچکی ہیں ۔ لیکن نتیجہ کیا نکلے گا فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ منگل کے روز حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان فائنل نشست ہوگی ۔

امید کی جارہی ہے کہ یہ نتیجہ خیز رہے گی ۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ آئین کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک میں فوری انتخابات کروائے جائیں انہوں نے اس سلسلے میں کورٹ سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔ لیکن حکومت اور اتحادی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک ساتھ الیکشن کروائے جائیں اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ حکومتی کمیٹی میں یوسف رضا گیلانی ، نوید قمر، اسحاق ڈار ، ایاز صادق ، خواجہ سعد رفیق ، اعظم نذیر تارڑ ، کشورث زہرا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے شاہ محمود قریشی ، فواد چودھری اور سینیٹر علی ظفر شامل ہیں۔

مذاکرات کی کامیابی اور پاکستان کے سیاسی استحکام کے لیے پوری قوم بشمول مسلم ، ہندو ، کرسچن اپنے اپنے مذہب کے مطابق دعاگو ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں اور ملکی سیاسی استحکام کا راستہ نکلے ۔ اتنی دعاؤں کے باوجود بھی پاکستان میں پچھلے ایک سال سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ احتجاجوں ، جلسے اور جلوسوں پر بدترین لاٹھی چارج ، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ ، غداری کے پرچے ، پولیس کا لوگوں کے گھروں میں گھس کر چادر چار دیواری پامال کرنا ، سیاسی ورکرز کی ہلاکتوں جیسے واقعات نے شدت پکڑ لی ہے۔

ان واقعات کا ری پلے ہمیں 28 اپریل کو جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب بھی دیکھنے کو ملا جب پولیس اور محکمہ اینٹی کرپشن نے چودھری پرویز الہی کی گرفتاری کے لیے لاہور میں واقع ان کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ تو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہی کی لیگل ٹیم نے پولیس کو بتایا کہ وہ 6 مئی تک عدالتی پروٹیکٹو بیل پر ہیں۔ بیل آرڈر کی کاپی نہ ہونے کے باعث پولیس نے انکی ایک نا سنی اور بکتر بند گاڑی کے ذریعے پرویز الہی کے گھر کا مین گیٹ توڑا اور اندار داخل ہوگئے پھر جو کچھ ہوا یہ مناظر پوری دنیا نے ٹی وی پر لائیو دیکھے۔

عدالت کی طرف سے دی گئی ضمانت کے باوجود چوھدری پرویز الہی کے گھر رات کے پچھلے پہر پولیس کا دھاوا، توڑ پھوڑ، خواتین پر تشدد فسطائیت کی بد ترین مثال ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس ملک میں آئین و قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی صرف اندھا راج ہے۔

عمران خان کی عدالتی پیشی کےدوران پی ٹی آئی کے کارکنان کی گرفتاریاں اور پرویز الہی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پنجاب پولیس کا آدھی رات کو دھاوا بول کر ان کے گھر کا مرکزی گیٹ اور اندرونی دروازوں کےشیشوں کی توڑ پھوڑ کیا اس امر کی نشاندہی نہیں کرتی کہ حکومت سمیت کوئی تو ہے جو یہ مذاکرات کسی قیمت پر بھی کروانا نہیں چاہتا، یہ کیسا ملک ہے جس کی وفاقی حکومت کو پتا ہی نہیں ہے کہ انہی کے وفاقی وزیر چودھری سالک کو پنجاب پولیس نے مارا اور وہ کانچ لگنے سے زخمی بھی ہوئے اور پرویز الہی کے ساتھ ساتھ ان کے گھر میں بھی توڑ پھوڑ ہوئی ۔

آخر کون ہے جو مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا ہے اور مذاکرات ختم کروانے کے لیے اسے ہوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن فواد چوہدری نے جب اس سلسلے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے رابط کیا تو انہوں نے پرویز الٰہی کے گھر میں ہونے والی پولیس گردی کے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا اور تو اور اینٹی کرپشن افسر کی مدعیت میں تھانہ غالب مارکیٹ میں پرویز الٰہی سمیت 50 افراد کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ مقدمے میں دہشت گردی اور اقدام قتل سمیت 13 دفعات لگائی گئی ہیں۔

پرویز الہی کے گھر اور عمران خان کے گھر پر حملے کا سکرپٹ رائٹر ایک ہی ہے. وہاں بھی ایسے ہی بکتر بند گاڑیوں سے گھر پر حملہ کیا گیا اور گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی. اس رجیم میں فسطائیت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور اس کا بوجھ ان جماعتوں کو اگلی کئی دہائیوں تک اٹھانا پڑے گا. مقبوضہ علاقوں میں بھی ایسی فسطائیت وبربریت نہیں کی جاتی جیسی فسطائیت جبر وظلم عمران خان اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کی جا رہی ہے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button