کالم و مضامین

2022ء بھی چلا گیا

تحریر : پروفیسر افتخار محمود

عرصہ دراز کے بعد اچانک بیٹھے یہ مضمون لکھنے کی ٹھن گئی اور کمپیوٹر کے ’’کی بورڈ‘‘ پر یکا یک انگلیاں چلنے لگیں ۔ وجہ کیا بنی کہ جب سے موبائل پر واٹس ایپ استعمال کرنا شروع کیا ہے کوئی نہ کوئی ایسی پوسٹ آتی رہتی ہے کہ قلمی دنیا سے دوران حیات تعلق رہنے کی وجہ سے موزوع قابل بحث آتے ہیں لیکن زندگی کے معمولات آڑے آتے ہیں پھروقت گزار دیتا ہوں ۔

ہر سال تو لاکھوں سالوں کی طرح گزر جاتا ہے ۔ آج پاکستان کو بنے 75سال گزر گئے ہر سال ہی آخری دنوں میں اخبارات ، رسائل میں گزرے سال کے دوران کے یادیں دہرائی جاتی ہیں ۔

مضمون کا انتخاب راقم کے ذہن میں کیسے آیا کہ جس پوسٹ کا اول الذکر سطور میں کیا گیا ہے کچھ اس طرح ہے کہ اس وقت آزاد کشمیر میں خصوصاً اور پورے پاکستان میں عموماً عالمی لیبر کنونشن پر دستخط کے باوجود دنیا کے اصل خالقین (محنت کش )خواہ وہ خدمات میں ہوں یا پیداواری شعبے میں ہوں سے ان کے بنیادی حقوق کی خاطر تنظیم سازی کا حق چھینا جا رہا ہے ۔ یہ محنت کش طبقہ زیادہ تر نجی شعبہ تعلیم سے متعلق ہے جن کو حکومتی احکامات کے باوجود آج بھی ماہانہ 25000/-روپے اجرت نہیں دی جاتی ہے ۔

ظاہری طور تو یہ شعبہ خدمات کا ہے لیکن معاشرے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ محنت کش اس میں خدمات سر انجام دیتے ہیں لیکن معاوضہ پورا نہیں دیا جاتا جو کہ سراسر زیادتی اور استحصال کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ مضمون کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمیں ہر سال کے اختتام پر اصل جن کو یاد کرنا ہوتا ہے وہ کبھی یاد آتے ہی نہیں بس اس سرمایہ دارانہ نظا م کی روایات کے مطابق چند بڑے دنیا سے جانے والوں ،فلم سٹارز، درباری لکھاریوں پر بڑے بڑے صفحات شائع کیے جاتے ہیں یا چند ایسے واقعات یاد کیے جاتے ہیں ، ٹاک شوز کیے جاتے ہیں جن کا ہم استحصا ل زدہ عوام سے تو دور کا تعلق ہوتا ہی نہیں ہے ۔

ہم یاد کرتے ہیں چند شخصیات کو جن کا عوام سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا ۔ اصل میں مضمون سپرد قلم کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ سال کے اختتام پر کیسی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بہتر ہو گا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ پاکستانی ریاست کا تو عوام سے دور دور کا تعلق نظر تک نہیں آتا یہ چند بااثر قوتوں ، خاندانوں ، اور اداروں کی جاگیر ہے جن کے درمیان سیاست کا ایک کھیل جاری رہتا ہے ہم عوام کو تماشائی کے طور پر رکھا جاتا ہے یا بوقت ضرور ت بطور ’’رائے دہندہ‘‘ استعمال کر کے خوش کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔

قارئین کرام کاش کتنا ہی اچھا ہوتا کہ سال 2022ء کے اختتامی لمحات میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا کہ دوران گزشتہ سال پاکستان کے2کروڑ بے گھر افراد میں سے کتنے کے سروں پر ریاست کی طرف سے چھتیں مہیا کی جاسکیں ، اسی طرح پاکستان کے9کروڑ 68لاکھ بے روزگاروں میں سے کتنے لاکھ کو مستقل روزگار فراہم کیا جا سکا ۔

پھر اس جائزہ کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے کتنے بیماروں کو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی مفت سہولت فراہم کی گئی ۔ پھر وطن عزیز پاکستان کے9کروڑ ناخواندہ افراد میں سے کتنے کروڑ بچوں اور بڑوں کو مفت یکساںتعلیم کی سہولت فراہم کرنے کے اقدامات کیے گئے ۔ کسی حکومت یا ریاست کی سالانہ کارکردگی کی بات کی جائے تو وہ بیان بالا اقدامات جیسے اقدامات ہوتے ہیں ۔ جو کہ آئین پاکستان کے مطا بق ریاست پاکستان کی بنیادی ذمہ داریوں(فرائض) میں شامل ہیں ۔ جن کی طرف ریاست یا حکومت کے کسی فورم پر جائزہ لینا تو کجا ،بات تک کرنا گوارہ نہیں سمجھا جاتا ۔ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ کئی بڑے چھوٹے ممالک موجود ہیں ۔

کرہ ارض کی سمت مغرب میں موجود ان ممالک نے جب کافی شکست و ریخت کے بعد محسوس کیا کہ فلاح یا ترقی کا راستہ کون سا ہے تو اپنی سرحدوں کے اندر پیدا ہونے والے ہر شہری کو چار بنیادی تفکرات( روزگار ، رہائش ، تعلیم اور صحت ) سے مشترکہ /متفقہ معائدہ سے معیشت کے تحت آزاد کر دیا جس کی تشریح کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ان ممالک میں ہر ماہ کی آمدنی سے ایک مقررہ فیصدی ٹیکس کی مد میں ریاست کی طرف سے وصول کیا جاتا ہے۔

ہر شہر ی کو بلا امتیاز رنگ ، نسل ، طبقہ رہائش ، تعلیم(ابتدائی سے اعلیٰ درجے تک) ، صحت (لامحدود اخراجات تک ) اور پھر روزگار جو سب سے بنیادی سہولت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہر شہری مرد ہو یا عورت اس ملک کی تعمیر و ترقی میں برابر شریک ہو جاتا ہے ۔ روز گار ذاتی ضرور ت تصور نہیں کیا جاتا بلکہ وطن کی تعمیر/ترقی میں ایک شراکت مانا جا تا ہے ۔

فراہمی کی ضمانت دے دی گئی ہے ،عرف عام میں ان ممالک کو ترقی یافتہ یا سکینڈے نیوین ممالک کہا جاتا ہے ۔ حالآنکہ یہ تمام ممالک سرمایہ دارانہ نظام معیشت پورے کرو فر سے نافذ کیے ہوئے ہیں اور اس پر مکمل پر یقین رکھتے ہیں ، ذرائع پیداوار ( زمین ، محنت ، سرمایہ اور تنظیم ) بالکل نجی ملکیت میں ہیں لیکن ان ممالک میں فلاحی اقدامات اس قدر ہیں کہ وضاحت ہوتی ہے تو ایک پاکستانی شہری ششدر ہو کر رہ جاتا ہے ۔

اسی وجہ سے ان ممالک میں اعلیٰ ذہانت اور ہنر کے حامل افراد کی قدر کی جاتی ہے ، ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک سے اعلیٰ ذہانت کے حامل مرد و زن کو کھینچ لیتے ہیں معاشی اعتبار سے اس سرگرمی کو انتقال ہنر اور اذہان کہا جاتا ہے ۔صرف یہی نہیں ان سماجی فلاحی ممالک میں ایک گھرانے کے جن افراد کے پاس روزگار ہوتا ہے ان کے علاوہ جو افراد ابھی روزگار کی تلاش میں ہوتے ہیں تا وقتیکہ روزگار فراہم ہو سکے تو ریاست کی طرف سے باقاعدہ بے روزگاری الاؤنس ماہانہ بنیادوں پر بلا کسی امتیاز کے دیا جاتا ہے ۔

برعکس اس کے ہمارے ہاں حکومتی اور حذب اختلاف کی طرف سے آج کل معیشت کی زبوں حالی کا ہر وقت رونا رویا جا رہا ہے لیکن عوام کی خاطر مخلص پن کسی طرف سے کچھ نظر نہیں آتا ۔ معائدہ معیشت کی بات تو کی جاتی ہے لیکن یہ فیصلہ ہو نہیں پا رہا کہ پاکستان کی معیشت کس طرح منصوبہ بند کیا جائے ؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے جو اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ 10سے 20سال کی مدت کے لئے تمام سیاسی معاشی سٹیک ہولڈر متفق ہوجائیں کہ اشیائے روز مرہ برائے صارفین کو دور و نزدیک شہر دیہات کے لئے ایک دفعہ مقر ر کر دیا جائے ماہرین معاشیات کو ٹاسک دیا جائے تو وہ آسانی سے یہ منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ۔ دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں۔

اسی طرح ناہموار معیشت کو ہموار کرنے کے لئے دولت اور ملکیت زمین کی حدود مقرر کی جاسکتی ہیں جیسا کہ ہمارے پڑوس میں زرعی اراضی کی حد ملکیت 25ایکڑ تک محدود ہے پھر یہ بھی کہ غیر حاضر زراعت پر سختی سے پابندی عائد کر دی جائے تو پاکستان کی معاشی ترقی کا جائزہ سالانہ بنیادوں پر کیا جائے تو کیسا پاکستان بن سکتا ہے؟ انتہائی قابل غور نقطہ ہے ۔

لیکن غور و فکر کرنے والوں کے لیے ۔ معاشی اعتبار سے اس وقت پاکستان میں کئی درجوں کے خاندان اور افراد موجود ہیں یہ تقسیم جب تک ختم کرنے کے متعلق غور نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان کے عوام کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا محال رہے گا اور یہ سالانہ جائزے صرف رسمی حد تک پیش ہوتے رہیں گے ۔ اگر جائزے کی بات کی جائے تو پھر اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ سال 2022ء کے بارہ ماہ کے دوران کتنے تعلیمی اداروں میں طلباء کو انجمن سازی کے بنیادی حقوق دیے گئے یا اس شعور کو اجاگر کرنے کے لئے کیا کیا گیا؟ ۔

تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ جامعات اور درسگاہوں سے ہی بڑے رہنما پیدا ہوتے ہیں کیونکہ وہ پہلے جامعات کی انجمن طلباء کا حصہ ہوتے ہیں جو پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے نہیں ہو رہا ہے ۔ جائزہ لینا چاہیے کہ گزشتہ سال کے دوران سرکاری یا نجی اداروں میں ملازمت کرنے والے کتنے محنت کشوں کو انجمن سازی کی اجازت دی گئی یا نہیں اگر نہیں تو کیوں؟۔

پھر سوال ہوتے ہیں کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو پاتا ،کیوں کر ہو گا ؟ جب ملک کے جامعات میں داخلہ لینے والے طلباء و طالبات سے تحریری بیان حلفی لیا جائے کہ دوران تعلیم طالب علم یا طالبہ کبھی بھی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا تو ایسے ملک کے اندر جامعات سے کون فارغ التحصیل ہو گا۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جامعات جو تحقیق کا مراکز مانے جاتے ہیں میں سے روایتی قسم کے نصابی تعلیم سے آراستہ شدہ نوجوان ہی نکلیں گے وہ کوئی محقق تو نہیں ہوں گے ایسے طلباء یا طالبات سے نئی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے جن پر دوران تعلیم یہ سختی سے پابندی عائد ہو کہ وہ سیاسی سرگرمیوں یا انجمن سازی سے دور رہیں گے تو وہ نوجوان نسل علاقائی گروپ سازی میں ہی مصروف رہے گی یا انتہا پسندی کے تصورات پروان چڑھیں گے تو پھر گزرے سال کے جائزے کیا ہوں گے ۔

قارئین کرام مندرجہ بالا سطور پتہ نہیں کتنے لوگوں کی نگاہوں سے گزریں گی ، کئی سیاسی فورموں سے نظام بدلنے اور انقلاب بپا کرنے کے بلند بانگ دعوے تو کر دیے جاتے ہیں لیکن یہ بات کبھی نہیں کی جاتی کہ اس انقلاب کے بعد وطن عزیز کا معاشی نقشہ کیا ہو گا ۔ سال کے اختتام پر باتیں ہوتی ہیں یہ جائزہ وہ جائزہ کس طرح کا جائزہ جس میں عوام جو محنت کش ، کسان اور مزدور یا دفتری کارکن پر مشتمل افراد ہیں شامل ہی نہ ہو ں گے ۔

الیکٹرانک میڈیا سے سوشل اور پرنٹ میڈیا اچھل کود ، آتش بازی کی ویڈیوز دکھانے پر زور ہے لیکن اس جائزے کی بات نہیں جس کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے ۔ میں ان قارئین کا ممنون رہوں گا جو یہ سطور پڑھ کر اپنی طرف سے پیش کردہ فلاحی ریاست کے نقشے کی حمایت کریں گے یا پھر دلائل کے ساتھ حوصلہ شکنی کریں گے پر امید رہوں گا۔ مضمون شروع تو تین روز قبل شام کو کیا تھا پھر وہی معمولات زندگی آڑے رہیں تو آج مکمل کرکے ارسال خدمت قارئین کر رہا ہوں۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button