
اتوار کو میری آفس سے چھٹی تھی تو میں افطار اور نماز سے فارغ ہو کر ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اچانک ایک دوست کا فون آیا کہ میاں صاحب آپ سے ملنے آرہا ہوں اور ہمارے ساتھ ایک نامور تجزیہ کار بھی ہوں گے جو آپ کے کالم باقائدگی سے پڑھتے ہیں اور آپ سے ملنے کی خواہش کا بھی متعدد بار اظہار کرچکے ہیں۔ آپ ایسا کریں کے آدھے گھنٹے بعد خان بابا کے ہوٹل پر آجائیں وہاں محفل لگاتے ہیں۔ پہلے بھی ہمارا اکثر وبیشتر زیادہ ٹائم خان بابا کے ہوٹل پر ہی گزرتا تھا۔
میں خان بابا کے ہوٹل پر پہنچا تو خان بابا مجھے دیکھتے ہی احتراماً میرے پاس آگئے۔ اتنے میں میرے دوست بھی وہاں پہنچ گئے۔ سلام دعا کے بعد جب ہم بیٹھنے لگے تو خان بابا نے کہا میاں صاحب آپ بینچ پرنا بیٹھیں ایسا نا ہو یہ بھی ٹوٹ جائے میں آپ کیلئے کرسی لاتا ہوں۔ یہ سنتے ہی تمام احباب نے زور دار قہقہہ لگایا اورسپریم کورٹ کا بینچ کیوں ٹوٹ رہا ہے اس پر ہماری گرما گرم بحث شروع ہوگئی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے الیکشن کے حوالے سے سماعت کرنے والا بینچ شروع میں 9 رکنی تھا پھر 7 پر آگیا پھر مزید 2 ججز نے خود کو الگ کیا تو یہ 5 پر آگیا۔ پھر ایک اور جج نے خود کو الگ کیا تو یہ بینچ 4 پر آگیا اور پھرجسٹس مندوخیل نے خود کوبینچ سے الگ کر لیا۔ بار بار ٹوٹنے والا یہ بینچ اب تین رکنی رہ گیا ہے۔ پاکستان میں بحران در بحران پیدا ہوتا جارہا ہے۔ ہم نے سیاسی بحران کو کم کرنے کی آخری امید سپریم کورٹ سے لگائی تھی لیکن سپریم کورٹ پر بھی اتنا دباؤ بڑھا دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال دوران سماعت جذباتی ہوکر آبدیدہ ہوگئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 11 مارچ کو مریم نواز نے فیصل آباد جلسے میں تقریر کے دوران کہا تھا کہ الیکشن سے پہلے ترازو کے دونوں پلڑے برابر کئے جائیں گے تو کیا اب چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں کمی کرکے اورعدلیہ کو نشانہ بنا کر ترازو کیدونوں پلڑے برابر کئے جارہے ہیں؟۔1997 میں بھی ن لیگ نے سپریم کورٹ میں ایک ڈرامہ رچایا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس کو کمزور کیا گیا اور آج بھی چیف جسٹس کو کمزور کیا جارہا ہے۔
اس وقت بھی تارڑ فیملی فرنٹ پر تھی اور آج بھی وہ فرنٹ پر ہے۔ ن لیگ جس بینچ پراب تنقید کررہی ہے یہ وہ ہی بینچ ہے جس نے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور قاسم سوری کی رولنگ کو غلط قرار دیا تھا۔ یعنی جس بینچ کی مدد سے وہ اقتدار میں آئے اس پر ہی اب عدم اعتماد کردیا گیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت الیکشن سے بھاگ رہی ہے اور آئین سے انحراف کے لیے عدلیہ پر دباو بڑھا رہی ہے۔
حکومت اور اتحادی جماعتوں نے ہفتے کو وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا کے کسی صورت بھی تین رکنی بینچ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ جب چوروں اور کرپشن کے کیسز میں ملوث کرپٹ مافیا کو محسوس ہوا کہ اب حکومت انکے ہاتھ سے جانے لگی ہے تو سب ایک مرتبہ پھر اکھٹے ہوگئے۔ ایک سال سے یہ ملک میں مہنگائی پر مہنگائی کر رہے ہیں لیکن کبھی انہوں نے عوام کی خاطر ایک اجلاس تک نہیں کیا لیکن جب اقتدار ہاتھ سے نکلنے لگا توتیرہ جماعتی اتحاد پھر سے اکھٹا ہو کر عدلیہ پر تیر برسانے لگا۔ اور تو اور لندن میں بیٹھ بڑے میاں صاحب بھی اچانک حرکت میں آگئے
ہفتے کے روز نواز شریف نے اچانک لندن میں بیٹھ کر پریس کانفرنس شروع کردی جسے پاکستان کے تمام میڈیا چینلز نے لائیو دیکھایا۔ جب انہوں نے پریس کانفرنس شروع کی تو مجھے لگا وہ سیاست میں جو عدم استحکام پیدا ہوچکا ہے اسے ختم کرنے کی کوئی تجویز پیش کریں گے لیکن جب وہ بولے تو ان کا نشانہ سپریم کورٹ آف پاکستان تھا اور جب اس نے نشانہ لیا تو تین رکنی بینچ کو ہی اپنی تیروں کا اور تنقید کا نشانہ بنایا اور یہاں تک کہہ گیا کہ اگر یہ تین رکنی بینچ کل فیصلہ کرتا ہے تو ہم اس کو ہرگز قبول نہیں کریں گے اور ساتھ یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو ایک ڈالر پانچ سو روپے کا ہوجائے گا۔
کوئی انہیں بتائے کہ جناب جب شہباز شریف کی حکومت آئی تو یہ ہی ڈالر 180 کا تھا جو اب 280 کا ہوچکا ہے۔ نواز شریف کی پریس کانفرنس کے بعد مجھے پہلی مرتبہ یوں لگا کہ یہ ملک واقعی اب تاریکیوں کی طرف، تباہی کی طرف اور ناکامیوں کی طرف نکل گیا ہے کیونکہ جیل سے ایک سزا یافتہ شخص ملک سے نکل کر لندن روپوش ہو جاتا ہے اور پھر وہاں سے وہ پریس کانفرنس کر کے ملک کے موجودہ نظام پر لفظوں کی دھمکیوں کی بمباری کرتا ہے۔ ریاست خاموش تماشائی بن کر ان کا ساتھ دے رہی ہے۔
کیا بکواس کالم لکھا ھے محترم چیف جسٹس نے ۸۴ میں سے ۸۳ کا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں کیےہیں اور آپ کو بینچ کی پڑی . ویب سائٹ سے اس کا لم کو ہٹا یا جائے اور لکھاری حضرات کو سچ لکھنا کی ہدا یت دیے