کالم و مضامین

پاکستان اسلامی جمہوری ریاست ہے ۔۔؟

تحریر: حبیب الرحمٰن (ڈومیلی)

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ اس فقرے کو محض دوسری یا تیسری جماعت کے بچوں کو متعلقہ سوال کا جواب دینے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ حقیقت میں ایسا کچھ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہاں اسلام نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ہم نے دنیا میں اسلامی ریاست اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے ظاہر کی ہوئی ہے لیکن یہاں پر اسلامی قوانین کا نفاذ حقیقت میں نہیں ہے۔

یہاں مساوات و ایثار نہیں بلکہ اس نعرے کی صرف چیخ و پکار ہے۔ یہاں عدل و انصاف نہیں بلکہ جس کے پاس پیسہ اس کو معاف ہےکیونکہ ہم نے ایسا مشہور زمانہ شاہ زیب قتل کیس میں دیکھ لیا ہے، ہم نے ایسا بلدیہ فیکٹری میں جلنے والے 280 ملازمین کے کیس میں دیکھ لیا ہے، ہم نے ایسا نقیب اللہ محسود کے قتل کیس میں دیکھ لیا ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ کس طرح ملک کو چوری کرنے والے کو اسی چوری کے پیسے سے بنے محلات میں آرام کرنے کے لئے باہر بھیج دیا جاتا ہے جبکہ کسی غریب چور کو ساری زندگی جیل میں گزارنی پڑتی ہے۔ یہاں پر رحم و کرم نہیں بلکہ ایسی بات کرنا جرم ہے گویا اسلامی ریاست کا نام لینے والوں نے محض نام لیا ہے اس کو حقیقی طور پر اس جیسا بنانے میں نہ کوئی کردار ادا کیا ہے اور نہ کسی کو ادا کرنے دیا ہے۔

پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے اور اس کی جمہوری اقدار اور اس کی جمہوریت کے نظام کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوری لیڈر جو کہ 5 سال بعد تبدیل ہوتا ہے وہ 23 تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ فوج کا لیڈر جو کہ تین سال بعد تبدیل ہوتا ہے وہ محض سترہ تبدیل ہوئے ہیں یعنی جمہوریت، آمریت میں ضم ہی رہی ہے۔

ایک طرف تو بہادر فوج کے سپہ سالار کو ملک کا سب سے بڑا حامی کہا جاتا ہے، ملک کے مشکل وقت میں انہیں مسیحا سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف جمہوریت جمہوریت کھیل کر انہیں غدار اور میر جعفر و صادق کہا جاتا ہے۔ ایک طرف تو دن کے وقت ان کو طرح طرح کے گھٹیا لفظوں میں پکارا جاتا ہے جو کہ انتہائی شرمناک ہےجبکہ دوسری طرف رات کے اندھیرے میں ان کی منت سماجت کی جاتی ہے اور ان کے پاؤں کو ہاتھ تک لگایا جاتا ہے۔

ایک اور جماعت مجھے کیوں نکالا مہم میں انکو بد نام کرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ کچھ وقت کے بعد انہی کے کہنے پر اپنے ٹوٹے پھوٹے نظریات اور موقف کو بیچ دہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں جہاں پر عوامی نمائندے شریف فرماتے ہیں وہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی مچھلی منڈی میں گاہکوں کی لڑائی چل رہی ہے۔ ایک دوسرے کو لعن طعن، ایک دوسرے پر کاپیاں پھینکنا ایک دوسرے پر بوتلیں پھینکنا، بس یہی نظر آ رہا ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ عوامی نمائندے ہیں بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی چھوٹے گاؤں کے سکول میں تیسری جماعت کے طالب علم ہیں۔

اسی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اسی پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندرونی معاملات کا ہر فیصلہ جو کہ وہاں موجود نمائندوں نے کرنا ہوتا ہے وہ عدالت میں لے جایا جاتا ہے اور پھر وہ فیصلہ عدالت کر رہی ہوتی ہے۔ملک میں ہونے والے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نفاذ کے لئے نہیں بلکہ محض لوٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

ہر فرد، ہرقوم، ہر طبقہ، اور ہر ادارہ جس کا جتنا ہاتھ لمبا ہوتا ہے وہ اس ملک کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ مگر جیسا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، بہت سے افراد اور ادارے اپنے ملک کی سالمیت کے لئے ڈٹ کر اپنے فرائض نبھا رہے ہیں لیکن ہماری ریاست کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے مخلص اور نڈرآدمی کو یا تو مار دیا جاتا ہے یا چپ کروا دیا جاتا ہے یا ملک بدر کروا دیا جاتا ہے ۔

حق گوئی جہاں سلب کر لی جائے وہاں جنگل کا قانون نافذ ہوتا ہے۔ اگر ہر آدمی صرف اپنی ذمہ داری ہی پوری دیانتداری سے نبھائے تو کوئی مسئلہ بھی جنم ہی نہ لے مگر دوسروں کے کام میں گھس کر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا رواج بھی پاکستان میں خوب پایا جاتا ہے اور یہی ہر انفرادی و قومی مسئلے کی جڑ بھی ہے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button