جہلم

جہلم میں میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر کی 51 ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی

جہلم میں 5 دسمبر کو نشان حیدر میجر محمد اکرم شہید کی 51ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔

جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل محمد ندیم اشرف نے میجر محمد اکرم شہید کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا، پھولوں کی چادر چڑھانے کی تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، سول و عسکری حکام اور شہید کے لواحقین نے شرکت کی۔

1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان کے علاقے ہلی کے محاذ پر میجر محمد اکرم نے اپنی فرنٹیئر فورس کی کمانڈ میں مسلسل 14 دن تک اپنے سے کئی گنا زیادہ بھارتی فوج کی پیش قدمی روک کر دشمن کے اوسان خطا کر دیے اور دُشمن کے ہر حملے کو ناکام بنایا۔

میجر محمد اکرم شہید 4 اپریل 1938ء کو پیدا ہوئے۔میجر محمد اکرم کا آبائی گاؤں ’’نکا خالص پور‘‘ ہے جو کہ ضلع جہلم میں واقع ہے۔ ان کے والد گرامی حاجی ملک سخی محمد نے بھی پاک فوج کی پنجاب رجمنٹ کی شیر دل بٹالین میں خدمات سرانجام دیں۔ اُن کا یہ نظریہ تھا کہ فوج میں شامل ہو کر ملک و قوم کی بہترین خدمات سرانجام دی جاسکتی ہیں۔ اسی نظریے کی بنا پر انھوں نے میجر اکرم کو فوج میں بھیجا۔

میجر محمد اکرم نے ابتدائی تعلیم چکری مڈل سکول سے حاصل کی جس کے بعد ملٹری کالج جہلم سے فارغ التحصیل ہو کر مارچ1961ء میں 28ویں پی ایم اے لانگ کورس میں شمولیت اختیار کی اور اکتوبر 1963ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پاک فوج کی مایہ ناز رجمنٹ 4 فرنٹیر فورس رجمنٹ میں شامل ہو گئے۔

1965ء میں محمد اکرم کو کیپٹن اور1970ء میں میجر کے عہدے پر ترقی ملی۔ میجر محمد اکرم کو اپنے کورس میں بہترین نشانہ باز کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ میجر محمد اکرم نے 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران سیالکوٹ کے ظفروال سیکٹر پر بہادری کے جوہر دکھائے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ کی کمپنی سابق مشرقی پاکستان کے ہلی سیکٹر پر دفاعِ وطن کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔

ہلی کے علاقے کی حیثیت ایک شہہ رَگ کی سی تھی۔ دُشمن کو اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے آپ کے دفاعی مورچوں پر قبضہ کرنا ضروری تھا۔ دُشمن کا یہ منصوبہ تھا کہ ہلی پر قبضہ کر کے شمال میں متعین فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے دشمن ایک ڈویژن سائز فورس بشمول تمام فضائی قوت کے ساتھ، آپ کی پوزیشن پر پے در پے 15روز تک حملے کرتا رہا مگر میجر محمد اکرم اپنے بہادر ساتھیوں کے ہمراہ اُن کی ہر کوشش کو ناکام بناتے رہے۔

میجر محمد اکرم جذبہ حُبُّ الوطنی، جنگی فہم و فراست اور انسانی حوصلوں کی معراج بن کر نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا اور خود راکٹ لانچر سے دشمن کے تین ٹینکوں کو تقریباََ سو گز کے فاصلے پر پوزیشن لے کر یکے بعد دیگرتباہ کر دیا۔ دُشمن نے ایسا جوان کب دیکھا ہوگا جو سامنے آکر فائر کرے وہ بھی اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر۔اس دوران انہوں نے دُشمن کو پاکستان کی سر زمین پر ایک اِنچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا اور بے مثال جرات و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتے رہے۔

بالآخر 5 دسمبر 1971ء کو میجر اکرم دِفاعِ وطن کے اس معرکے میں شہید ہو گئے۔ اس یاد گار معرکے میں آپ نے فرض کی تکمیل کے لیے جس انداز میں جان کا نذرانہ پیش کیا وہ ایک لازوال روایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی بے مثال جرات، دَلیری اور بے باکی کا اعتراف ہندوستانی کمانڈر انچیف نے بھی کیا۔

ہلی کے محاذ پر دُشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچانے پر میجر اکرم شہید کو ’’ہیرو آف ہلی‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔ بہادری اور جرات کی نئی داستان رقم کرنے پر آپ کو پاک فوج کے اعلیٰ ترین اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button