کالم و مضامین

یاسمین راشد کے بری ہونے پر سیاسی منظر نامہ پھر تبدیل

تحریر: میاں افتخار رامے

جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے حالات بھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ اداروں نے بھی وقت کے تقاضوں کو مدد نظر رکھتے ہوئے خود کو تبدیل کر لیا ہے ۔ پہلے دور کی عسکری قیادت آج کے مقابلے میں صرف پندرہ فیصد ناپسندیدہ وجوہات کی بنا کر اقتدار ہاتھ میں لے لیا کرتی تھی۔

مگر آج کے اس جدید دور میں اقتدار کو براہ راست ہاتھ میں لینا آوٹ آف فیشن سمجھا جاتا ہے اور دنیا بھر میں بدنامی الگ ہوتی ہے۔ اس لیے اب اقتدار کرائے پر دیا جاتا ہے جس طرح دیہاتوں میں زمین مستاجری پر دی جاتی ہے کہ کھاد، ادویات اور بیج ہمارے ، محنت تمہاری، ہر فصل سے تین چوتھائی ہمارا اور ایک چوتھائی تمہارا۔

اسی طرح پاکستان بھی اربوں ، کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ملزم کو ٹھیک ایک سال پہلے مستاجری پر دیا گیا ۔ کرپٹ ، چور اور لیٹروں کی تجربہ کار ٹیم نے ایک سال میں پاکستان کا جو حال کیا وہ آپ سب کے سامنے ہے ۔چھ ماہ میں شہباز شریف کے ملک کو ٹھیک کرنے کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے۔

ملک کا دیوالیہ نکالنے والی اس حکومت نے مہنگائی اتنی کر دی ہے کہ انکے کے لیے قیدیوں کو بھی جیل میں رکھنا محال ہوگیا ہے۔ قیدیوں کو جیلوں میں رکھنے ، مقدمہ چلانے اور ان کے کھانے پینے کے نخرے اور ابے بی کلاس کی عیاشی برقرار رکھنا بھی حکومت کے بس سے باہر ہوگیا ہے۔

اسی لیے تحریک انصاف کے گرفتار کارکنوں اور رہنماوں کو آج کل دو آپشن دی جارہی ہیں کہ کیا آپ آرام سے گھر بیٹھنا پسند کریں گے اور رضاکارانہ طور پر سیاسی منظر نامے سے ہٹنا چاہیں گے یا ہم آپ کو لیٹا کر آپ کی اس سلسلے میں مدد کریں۔ جونہی کوئی شخص حکومت کے کہنے پر پریس کانفرنس کرکے پی ٹی آئی سے اظہار لاتعلقی کرتا ہے تو فوراً اسکے تمام کیسز اور غداری کا لیبل ختم ہوجاتاہے۔

ان حالات کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی کرئیر کا سب سے مشکل وقت گزر رہے ہیں۔ ان کے کئی قریبی دوست اور بہت سے پارٹی رہنما یا تو پی ٹی آئی سے الگ ہوچکے ہیں یا پھر سیاست کو ہی خیر آباد کہہ گئےہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑنے والے رہنماؤں کی سینئر سیاستدان جہانگیر خان ترین سے رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، ممکنہ رجسٹرڈ کرائی جانے والی نئی جماعت کے ناموں پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

نئی جماعت رجسٹرڈ ہوتی ہے یا نہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ فرض کریں اگر نئی جماعت تشکیل دے بھی دی جاتی ہے تو کیا وہ الیکشن میں کامیاب ہو جائے گی یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکے عمران خان کے خلاف بنائے جانے والے بہت سے پلان بری طرح فیل ہوکر ناکام ہوچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ پلان بھی بری طرح پٹ جائے۔ کیونکہ ماضی میں بھی عمران خان کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے بہت سے منصوبے بنائے گئے جو وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی فیل ہوگئے۔

عمران خان کو امریکی رجیم چینج آپرپشن کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے کے بعد پی ڈی ایم نے تقریبا 8 ماہ تک توشہ خانہ ، توشہ خانہ کی رٹ لگائے رکھی۔ آٹھ ماہ بعد جب ہائی کورٹ کے جج نے توشہ خانہ کا ریکارڈ منگوایا تو عمران خان کے خلاف شور مچانے والے سب ہی بڑے بڑے چور نکلے ۔ جس کے بعد توشہ خانہ والا ڈرامہ بری طرح ناکام ہو کر فیل ہوگیا ۔ پھر فارن فنڈنگ کیس کا شور مچایا گیا ۔ جب کورٹ نے تمام جماعتوں کی فنڈنگ سامنے لانے کا حکم دیا تو الیکشن کمیشن خود ہی اس کیس کو بھول گیا ۔

اب تو اس کا نام بھی سننے کو نہیں ملتا ۔ پھر ٹیرن کیس میں عمران خان کی نااہلی کی امیدیں لگائی گیں لیکن کورٹ نے کیس ہی فارغ کردیا ۔ جب ہر طرف سے مایوسی ہوئی تو میڈیا پر 9 مئی والے واقعات کو اچھالا گیا لیکن ایک مرتبہ پھر عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو کور کمانڈر کے گھر پر حملے کے کیس میں شواہد نہ ملنے پر بری کردیا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد سنٹرل پنجاب کی صدر ہیں، جب صدر بری ہوگئیں تو ثابت ہوا کہ جلاؤ گھیراؤ پارٹی کی پالیسی نہیں ہے۔

اِس کے بعد بہت سے سوال اُٹھ جاتے ہیں کہ کیا یہ تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کیلئے ایک منصوبہ بندی تھی؟ یہاں میں ایک بات واضح کر دوں جس طرح کسی شخص سے اس کی شہریت نہیں چھین سکتے بالکل آپ اسی طرح کسی سیاسی جماعت میں موجود چند گندے انڈوں کی وجہ سے اس کے نظریات کی بنیاد پر اس پر پابندی بھی نہیں لگا سکتے۔

مولانا مودودی کو 1948ء میں جہاد کشمیر کی مخالفت میں گرفتار کیا گیا، یہ 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں بھی گرفتار ہوئے اور ریاست نے انھیں موت کی سزا تک سنا دی لیکن جماعت اسلامی پر پابندی نہیں لگی، جئے سندھ کے جی ایم سید نے پوری زندگی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا لیکن جئے سندھ پر پابندی نہیں لگی۔

عوامی نیشنل پارٹی کے قائد خان عبدالغفار خان نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا تھا۔ان کی قبر آج بھی جلال آباد میں موجود ہے لیکن اے این پی نے بعد ازاں حکومتیں بھی بنائیں اور یہ آج بھی ایوانوں میں موجود ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے عسکری ونگ الذوالفقار نے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن ریاست پیپلز پارٹی پر پابندی نہ لگا سکی۔

پیپلز پارٹی نے اس کے بعد تین بار وفاقی حکومتیں بنائیں، آپ اسی طرح بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا ڈیٹا دیکھ لیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ان تمام بلوچ سیاسی جماعتوں پر مختلف اوقات میں مختلف الزام لگتے رہے لیکن ریاست نے ان پرکبھی پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگنی چاہیے۔

آپ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ انکا انداز حکمرانی آپ کو نا پسند ہو سکتا ہے ۔ ان کی جماعت کے بعض رہنماوں کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن تحریک انصاف پر غداری کے الزامات عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ایسا کرنے سے کبھی بھی کسی سیاسی جماعت کو نہ تو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button