
ریاست کی پوری مشینری اس معاشی نظام کو قائم رکھنے اور اس کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتی ہے ۔
یہ قلم کا امین چونکہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی والے دیہاتی علاقہ میں زندگی کا مسافر ہے اس لئے ان سطور کو اپنے دیہاتی مزدوروں اور کسانوں،کھیت مزدوروں کے نام کرتا ہے مقصد یہ کہ شاید ان دیہاتی محنت کش ، دوکان داروں ، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ ، پرائیویٹ ڈاکٹروں پیرا میڈیکل سٹاف ، دفاتر چلانے والے کلرکوں،یومیہ مزدوری کرنے والوں کو یہ بات سمجھ آسکے کہ یہ اوقات کار جن کو وہ اپنا حق تصور کرتے ہیں۔
ان کی بنیاد اصل میں 137سال قبل یوم مئی کا وہ سانحہ ہے جس میں ان مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے شکاگو کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سرمایہ داروں کو مجبور کر دیا کہ وہ صنعتی شعبہ کے ساتھ ساتھ زرعی شعبہ میں بھی اوقات کار صرف 8گھنٹے بلکہ کئی ممالک میں 6گھنٹے تک ، مقرر کر دیے جائیں ہمیں علم ہونا چاہیے جس معاشی عالم کارل مارکس کا ذکر کیا گیا اس نے نئے انقلابی نظریہ کے ذریعے ایک جدید انقلابی نظام معیشت کو متعارف کرایا جس کانام اشتراکیت ( سوشلزم) ہے ۔
اس جدید نظریہ کے نتیجہ میں قائم ہونے والا معاشرہ استحصال ، معاشی اخلاقی جرائم اور اوچ نیچ سے پاک ثابت ہوا۔ یہ نظام دنیا بھر کو معاشی طور پر جکڑے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا ’’توڑ‘‘ ثابت ہوا ۔مزدور طبقہ کو اس قدر بیداری ہوئی کہ 1871ء میں فرانس میں پیرس کمیون کے نام سے پہلا سوشلسٹ انقلاب بر پا ہواتھا ۔
اس معاشی انقلاب کی بنیاد ذرائع پیداوار کی لا محدود نجی (ذاتی) ملکیت کا خاتمہ تھا نتیجہ میں ذرائع پیداوا ر جن میں زمین ، محنت ، سرمایہ اور تنظیم مکمل طور پر ریاست کی ملکیت قرار پائے ۔رہائش ،روزگار، تعلیم اور صحت جیسی چار بنیادی سہولیات برابر طور دینے کے ساتھ محنت صرف ذہنی جسمانی صلاحیت کے مطابق جبکہ معاوضہ اپنی اور خاندان کی ضرورت کے مطابق کافارمولہ دیا گیا ۔
پیرس کمیون انقلاب کی کرنیں سورج کی کرنوں سے کم نہ تھیں اس انقلاب کے اثرات نجی ملکیت کے چنگل میں پھنسے دنیا بھر کے محنت کش طبقہ کے کانوں میں گونج گئیں ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک یہ اثرات پھیل گئے بڑے دیوہیکل کارخانوں کے مزدور منظم ہوئے ایک تحریک کا آغاز ہوا جس کا مطالبہ تھا کہ محنت کے اوقات کار کم کر کے 8گھنٹے تک مقرر کیے جائیں اب مشین چلانے والے ہنر مند اور سرمایہ دار نام نہاد مالک کارخانہ دار ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے مغربی دنیا جہاں صنعتی انقلاب آ چکا تھا ۔
ان کارخانہ داروں نے 1886ء میں یکم مئی کے بعد فیصلہ کیا کہ اوقات کار 8گھنٹے ہوں گے ۔ لہٰذا آج کے یومیہ یا ماہانہ پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کش طبقہ کو علم ہونا چاہیے کہ یوم مئی کی اصل اہمیت کیا ہے کیونکہ 2007-08کے ایک سروے کے مطابق آج پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق51اعشاریہ78ملین مزدوروں کی تعداد ہے جو شہری آبادی کا 32اعشاریہ2فیصد شرح کے حساب سے بنتی ہے ۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 10سال کی عمر سے لے کر تمام اضافی حدود تک کی عمر کے افراد مزدور کے زمرے میں شامل ہیںاس نظریے کے مطابق 40اعشاریہ09ملین افراد با روزگار تصور کیے جاتے ہیں جو ضروریات زندگی اپنی محنت سے پوری کرتے ہیں جبکہ صرف 2اعشاریہ69ملین لوگ پاکستان کے شہری علاقوں میں بے روزگار ہیں یعنی ان افراد کے پاس اجرت پر ہفتہ بھر کے لئے کوئی روزگارنہیں ہے۔
علاوہ ازیں ملک بھر کی نصف سے زائد آبادی دیہات میں آباد ہے جہاں باروزگار خواتین کی شرح کل آباد ی کا 20فیصد یعنی 10 ملین ہے ۔ زرعی شعبہ میں 44 فیصد مزدور ، اس کے بعد خدمات کے شعبہ میں 35فیصد باروزگار افراد ہیں ، ساتھ ساتھ دیہی صنعت اور شعبہ مصنوعات میں 20فیصد آبادی باروزگار تصور کی جاتی ہے رسمی طور پر صرف 27 فیصد آبادی معاشی سرگرمیوں میں شامل ہے جبکہ غیر رسمی طور زرعی شعبہ کے علاوہ 70فیصدسے زائد افراد معاشی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
پاکستان بھر میں اجتماعی پیداواری شعبہ سے منسلک محنت کشوں کے لئے یوم مئی کے حوالے سے ایک پیغام ہے کہ وہ متحد ہوکر اپنے بنیادی حقوق کے لئے جدو جہد کریں تو 1871ء کے پیرس کمیون انقلاب فرانس، 1917ء میں (USSR) موجورہ روس میں آنے والے مزدور انقلاب یا پھر 1949ء عوامی جمہوریہ چین کے اندر آنے والے سوشلسٹ انقلاب کی تاریخ نہ صرف دہرائی جا سکتی ہے بلکہ 1886ء میں شکاگو کے فولادی کارخانوں کے اندر اپنے حقوق کے لئے قربانی دینے والوں کی یاد واقعی تازہ ہو سکتی ہے۔
یہاں موقع کی نذاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے لاکھوں یومیہ مزدوروں ، محنت کشوں ، معماروں ، پرائیویٹ سیکٹر کے یومیہ کارکنان کے لئے بھی خصوصی پیغام دیا جات اہے کہ وہ اپنی محنت واحدہ میں نیک نیتی اور دیانت داری سے کریں تو وہ بھی ایک قوت ثابت ہو سکتے ہیں۔
جیسا کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ یومیہ محنت کش ہوں یا کسان کھیت مزدور اپنی محنت دیانت داری سے نہیں کرتے بلکہ کام چوری اور جھوٹ ان کا شعار دیکھنے میں آتا جیسا کہ لیبر ڈے کے عنوان سے ان یومیہ مزدوروں اور محنت کشوں کی بد دیانتی اور غلط بیانی کے واقعات دہرائے گئے ہیں جو کہ حقیقت میں بہتر نہیں ہے ، مزدور یومیہ ہو پیداواری یا اجتماعی سطح پر ملکی پیداوار یا خدمات سے وابستہ ہوں اسے دیانتدار ہونا چاہیے سچ اور نیک نیتی اس کی پہچان ہونی چاہیے ۔
مزدور یومیہ ہو یا ماہانہ کارخانے یا دفتر میں کام کرنے والا ہو وہی تخلیق وطن میں بنیادی کردار کا حامل ہوتا ہے جس کا علم اس اکثریتی قوت کو علم نہیں ہوتا۔ صرف اس محنتی قوت کو نظریاتی علم/ شعور کی ضرورت ہے کہ علم ہو کہ پاکستان کے معاشی مسائل کاواحد حل سوشلسٹ(اشتراکی) معاشی نظام ہے جو کہ وقت حاضر کا حقیقی تقاضا ہے اور ایک زمینی حقیقت ہے جس سے پاکستان کا حکمران طبقہ روگردانی کرتے ہوئے عوام کو نظریاتی سیاست سے دور رکھتے ہوئے شخصیات کے لئے بے گناہ جانیں دینے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ (ختم)
اس سلسلے کی پہلی قسط یہاں کلک کر کے پڑھیے۔
ای میل [email protected]
فون نمبر:03065430285
03015430285