کالم و مضامین

پوسٹ پارٹم فیملی پلاننگ

تحریر: مریم نعیم ستی (ڈسٹرکٹ ڈیموگرافر ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفس جہلم)

پوسٹ پارٹم فیملی پلاننگ میں زچگی کے بعد کی مدت کے اندر خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کی معلومات، مشاورت اور خدمات کی فراہمی شامل ہے۔ پوسٹ پارٹم مدت فوری بعد از زچگی (6 ہفتوں کے اندر) اور توسیعی پوسٹ پارٹم مدت (1 سال تک)  شمار کی جا سکتی ہے۔

اس عرصے کے دوران مانع حمل طریقوں کا استعمال نوزائیدہ بچوں کی بیماریوں اور اموات میں کمی لانے میں انتہائی موثر ہے۔ وقفے کے لیے مانع حمل طریقہ استعمال نہ کرنے کی صورت میں غیر ارادی حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی پیدائش قبل از وقت ہوسکتی ہے یا پھر پیدا ہونے والا بچہ کم وزن  ہوسکتا ہے۔

علاوہ ازیں ماں کا جسم اور صحت بعد از زچگی بحال نہیں ہو پاتی جس کی وجہ سے ماں پر، اس کے خاندان اور گھر والوں  پر منفی اثرات آتے ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) صحت مند خاندان اور موثر نتائج کے لئے ہر زندہ پیدائش کے درمیان کم از کم 24 سے 36 ماہ کے وقفے کی سفارش کرتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس عرصے کے دوران خاندانی منصوبہ بندی کا استعمال ماؤں کی شرح اموات میں 30 فیصد اور بچوں کی شرح اموات میں 10 فیصد سے زائد کمی لاتا ہے۔ بلاشبہ یہ وقفہ والدین کو بچوں کی بہتر معیار زندگی، ان کی تعلیم، پرورش، غذائیت اور مجموعی تندرستی کے لیے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ایک عورت بچے کی پیدائش کے بعد 45 دنوں کے اندر دوبارہ حاملہ ہونے کے قابل ہو جاتی ہے۔ لیکن ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں 52 فیصد خواتین کو یہ معلومات نہیں ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق خواتین کو بعد از زچگی 6 ہفتوں کے اندر مانع حمل طریقے استعمال کرنے شروع کر دینے چاہئیں۔ خواتین اور صحت کی سہولیات مہیا کرنے والے عملے دونوں میں بعد از پیدائش ہو جانے والے حمل کے امکانات سے لاعلمی انتہائی غیر مناسب اور غیر محفوظ ہے۔

ڈیموگرافک ہیلتھ سروے (2018 -2017) کے مطابق پاکستان میں موجودہ پوسٹ پارٹم خواتین میں سے 4 فیصد خواتین ایسی ہیں جو دوبارہ سے حاملہ ہو چکی ہیں اور ان میں 58 فیصد خواتین حاملہ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ اگرچہ بچے کو ماں کا دودھ پلانا مانع حمل کے قدرتی طریقے کے طور پر کام کرتا ہے، لیکن یہ مانع حمل کے لئے 100 فیصد محفوظ طریقہ نہیں ہے۔

اس طریقے کو صرف تب تک استعمال کیا جا سکتا ہے جب تک کہ بچہ چھ ماہ کی عمر کو نہ پہنچ جائے اور اس عرصے میں بھی یہ 98 فیصد موثر تب ہی ہو سکتا ہے جب تک بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی اور خوراک نہ دی جائے، بچے کو دن اور رات میں ہر دو سے چار گھنٹے کے بعد دودھ پلایا جائے، اور ماں کو ماہواری بھی واپس نہ آئی ہو۔

خواتین کے ذہن سے یہ عام غلط تصور دور کرنا نہایت ضروری ہے کے ماں کا دودھ حمل کے امکانات کم ضرور کر دیتا ہے لیکن مکمل طور پر حمل روکنے سے قاصر ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس عرصے میں دودھ پلانے کے ساتھ کوئی اور مؤثر جدید مانع حمل طریقہ بھی استعمال کیا جائے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی ترجیحات پر عمل پیرا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ عورتوں کے پاس مختلف مانع حمل طریقوں کی فراہمی اور انتخاب سے متعلق معقول اور درست معلومات موجود ہوں۔

اس حوالے سے صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات فراہم کرنے والے سٹاف کی مشورہ سازی کی خدمات بہت اہم ہیں۔ بہت زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اس مدت کے دوران عورتوں کی مانع حمل کی ضرورت پوری نہیں ہو پائے باوجود اس کے کہ ان میں خاندانی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہونے کی بہت زیادہ خواہش ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 17 فیصد خواتین خواہش رکھنے کے باوجود مانع حمل ادویات استعمال نہیں کر پاتیں جبکہ پوسٹ پارٹم خواتین میں یہ شرح 30 فیصد سے زائد ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زچگی کے آخری ایام میں معائنہ، صحت کے مراکز میں بچے کی پیدائش، پیدائش کے بعد معائنہ، بچے کے حفاظتی ٹیکوں کے لیے مراکز سے رابطہ ان سب کے دوران خاندانی منصوبہ بندی کی مشورہ سازی اور ان سہولیات کی فراہمی سے پوسٹ پارٹم فیملی پلاننگ کے امکانات کو بہت بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اگرچہ یہ عورت کے تولیدی ارادے پر منحصر ہے کہ وہ مانع حمل طریقے کب، کون سا اور کتنا عرصہ استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن پوسٹ پارٹم کی مدت کے دوران خاندانی منصوبہ بندی کی مخصوص ضروریات کے پیش نظر اس پر فوری عمل درآمد ضروری ہے تاکہ ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔

علاوہ ازیں پوسٹ پارٹم فیملی پلاننگ ہمارے ملک کی موجودہ بڑھتی ہوئی آبادی کی سنگین صورتحال کی اہم ضرورت ہے اور فیلمی پلاننگ 2022کے مقاصد اور وعدوں کو پورا کرنے کا واحد حل ہے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button