کالم و مضامین

عمران خان، عدالت، پولیس اور الیکشن

تحریر: میاں افتخار رامے

ہم آفس کی میٹنگ سے فارغ ہوئے تو ایک دوست نے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا کیا خیال ہے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل ہوجائیں گے یا انہیں عدالت کے حکم پر گرفتار کرلیا جائے گا۔

میں نے کہا بظاہر لگتا تو یہ ہی ہے کیونکہ کیس بہت کمزور ہے، ایک جعلی اور معمولی نوعیت کا کیس بنایا گیا ہے، میں خاموش ہوا تو اس کا بلند بانگ قہقہہ میری سماعتوں سے ٹکرایا، ہنسی کا یہ یکطرفہ طوفان تھما تو میں نے کہا کہ کیا میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہے، تو وہ پھر ہنسا اور مجھے یوں لگا کہ جیسے میرا تمسخر اڑا رہا ہو لیکن کچھ ہی دیر میں وہ بھی سنجیدہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ آج عمران خان کا بچنا ناممکن ہے۔

ابھی ہم یہ ہی بحث کر تھے کہ خبر آئی کے کورٹ نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرکے انہیں 13 مارچ کو ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کے احکامات جاری کئے ہیں لیکن رکیے کھیل ابھی یہاں پر ختم نہیں ہوا۔ چند منٹ بعد ایک اور خبر نے میڈیا کے ایوانوں کو پھر سے ہلا کر رکھ دیا تمام اسکرینیں ایک مرتبہ پھر لال ہوگیں کہ الیکشن کمیشن سے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کروادیئے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بارہا طلبی کے باوجود عمران خان الیکشن کمیشن میں پیش نہیں ہورہے، آئی جی اسلام آباد وارنٹ گرفتاری کی تعمیل یقینی بنائیں الیکشن کمیشن کا 4رکنی بنچ 14 مارچ کو معاملے پر سماعت کرے گا، آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وارنٹ کی تعمیل یقینی بنائیں۔

میرا وہ دوست اپنی بات کرکے یہ جا وہ جا میں مریم نواز کی تقریر جو وہ شیخوپورہ میں کررہی تھیں سننے لگا مریم نواز کا کہنا تھا کے عمران خان گیڈر ہے اور زمان پارک میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ عمران خان کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں اسے بہادری نواز شریف سے ادھار لے لینی چاہے۔ مریم بی بی یہ تو پھر بالکل ایسے ہی ہے جیسے سنی لیون سے غیرت ادھار پر لے لی جائے۔

مریم نواز صاحبہ آپ جس نواز شریف کے بہادری کے قصے بیان کرتی ہیں وہ تو خود بیماری کا بہانہ بنا کر 50 روپے والا اسٹام پیپر دے کر پاکستان سے بھاگا ہوا ہے اور اس نے دوبارہ پاکستان آنے کی زحمت تک نہیں کی۔ مریم صاحبہ یہ قوم اب آپ کی جھوٹی اور جعلی تقریروں میں آنے والی نہیں ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ عمران خان اس وقت ملک میں آئین،قانون اور عام آدمی کی جنگ لڑ رہا ہے۔عمران خان کا راستہ روکنا اب حکومت کے بس کی بات نہیں وہ عوام کے دلوں میں بس چکا ہے۔ ملک میں ہونے والا ہر سروے اور ہر ضمنی الیکشن عمران خان کی مقبولیت کی گواہی دے رہاہے۔

ملک میں پی ایس ایل پورے زور شور سے جاری ہے۔ حکومت کڑوروں روپے لگا یہ ایونٹ کروا رہی ہے لیکن خزانہ خالی ہونے کا بہانہ بنا کر حکمران جماعت نئے انتخابات میں بالکل دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔ صدر مملکت جناب عارف علوی نے الیکشن کمیشن کی تجویز کے بعد 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی تھی۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے تاحال انتخابات کی کوئی حتمی تاریخ کا اعلان سامنے نہیں آ سکا۔ انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے ہی عمران خان کی گرفتاری کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے کیونکہ ن لیگ اور پی ڈی ایم کو نظر آرہا ہے کہ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو ہمارے ہاتھ سے سب کچھ نکل جائے گا۔

ملک میں سیاسی بحران اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ اگر دونوں صوبوں میں الیکشن ہو بھی جاتے ہیں تو الیکشن نتائج کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ ملک ایسی دلدل میں پھنس جائے گا جہاں سے واپسی نا ممکن ہو گی۔اس لیے ملک ایک ہے تو پورے پاکستان میں الیکشن بھی ایک روز ہی ہونے چاہیں۔

اگر ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور واقعی پاکستان کی ترقی چاہتی ہیں تو انہیں مل بیٹھ کر باہمی مشاورت سے نئے انتخابات کی طرف جانا چاہیے کیونکہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی کی وجہ سے پاکستان اس وقت ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر ہے مہنگائی بڑھ رہی ہے ڈالر مضبوط ہو رہا ہے۔

کئی بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ماہرین اقتصادیات بھی پاکستان کے تباہ کن قرضوں کے بحران پر خطرے کی گھنٹی بجا رہیے ہیں۔ پاکستان اس وقت سری لنکا جیسی صورتحال کا شکار نہیں لیکن اس سے زیادہ دور بھی نہیں۔ عام آدمی بلکے پوری قوم ہی کنفیوز ہے کہ آخر اس سیاسی کشمکش اور معاشی بدحالی کا حل کیسے اور کب نکلے گا؟ کہیں سیاست دان اپنی آپس کی کشیدگیاں بڑھا کر ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی مداخلت کی دعوت تو نہیں دے رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button