
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے 2012 میں سیاست میں قدم رکھا۔ 2013 کے جنرل الیکشن میں بلاول بھٹو نے انتخابات کی قیادت کی۔ اس وقت ان کی عمر کم تھی جس کی وجہ سے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ پاکستان میں الیکشن لڑنے کے لیے کم سے کم عمر 25 سال ہے۔ اس لیے بلاول 2018 کے عام انتخابات میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
2018 کے جنرل الیکشنز میں بلاول بھٹو نے تین سیٹوں پر الیشکن لڑا جن میں سے دو پر یہ ہار گیا۔ اپنی آبائی لیاری کی سیٹ تک نہ جیت سکا۔ وہاں یہ رنر اپ بھی نہ بن سکا۔ اسے بمشکل اندرون سندھ یعنی لاڑکانہ سے جتوایا گیا۔
2022 میں اب سے ایک سال پہلے جب تیرہ جماعتی اتحاد نے ملکر رجیم چینج آپریشن کے ذریعے عمران خان کی حکومت گرائی تو 33 سالہ بلاول بھٹو پاکستان کے کم عمر ترین وزیرخارجہ بنے جو انکا پہلا سرکاری عہدہ تھا۔ بلاول بھٹو اس شخص سے اتحاد کرکے وزیر خارجہ بنا جو اس کی والدہ کو پیلی ٹیکسی کہا کرتا تھا۔
بلاول بھٹو نے 2018 میں اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم عمران خان کے لیے سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کیا۔ عمران خان کے لیے استعمال کی گئی سلیکٹڈ کی اصلاح نے عمران خان کے مخالفین میں خاصی مقبولیت حاصل کی۔ بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ کا منصب سنبھالتے ہی ورلڈ ٹور پر نکل گئے اور دو ماہ تک سرکاری خرچے پر خوب انجوائے کیا۔ ایسے ایسے ممالک کے دورے کئے جن کا نام سن کر اچھے خاصے پڑھے لکھے انسان کو نقشہ دیکھنا پڑتا کہ یہ ملک دنیا کے کس کونے میں ہیں۔
دو تین دن سے بلاول بھٹو زرداری کا دورہ بھارت سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ پہلی بار بلاول 2012 میں اپنے والد اور اس وقت کے صدرآصف علی زرداری کے ہمراہ انڈیا گئے تھے۔ چار مئی 2023 کو بلاول بھٹو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے گوا (بھارت) گئے۔ ایس سی او کانفرنس کے دوران بلاول کی مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ کے سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سیاست میں ناتجربہ کار اور پہلی مرتبہ وزیر خارجہ منتخب ہونے والے بلاول بھٹو کا دورہ بھارت ناکام تھا۔ انٹرنیشنل دوروں کے شوقین بلاول بھٹو کو یقیناً شرمندگی ہوئی ہوگی کہ وہ پاکستان کا سچا سودہ بھی نہ بیچ سکے۔ بلاول بھٹو جس طرح پاکستان میں اپنی تقریر اور میڈیا ٹاک میں بڑے کانفیڈنٹ نظر آتے ہیں ویسے بھارت میں نہیں تھے۔ وہ ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے تھے۔
2014 کے بعد پاکستان کے پاس بھارت میں اپنا مقدمہ پیش کرنے کا یہ بہترین موقع تھا لیکن بلاول خود شرمندہ ہیں کہ وہ پاکستان کا موقف اس طرح عالمی سطح پر پیش نہیں کر سکے جس طرح کرنا چاہے تھا۔ بلاول بھٹو کی وہ تیاری نہیں تھی وہ کانفیڈنس نہیں تھا وہ سفارتکاری بھی نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی۔
ہم نہ تو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے متاثر ہیں اور نہ ہی اس کی تعریف کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم نے پاکستان میں ایسا وزیر خارجہ رکھا ہوا ہے جس کا نہ تو کوئی تجربہ ہے ، نہ عقل ہے اور نہ کوئی سمجھ بوجھ ہے کیونکہ ہندوں کی طرح ہاتھ جوڑ کر پرنام کرکے بھارتی وزیر خارجہ کی جانب بڑھنے والے بلاول بھٹو کے ساتھ یہ ہی سلوک ہونا چاہیے تھا جو ہوا۔ اگر بلاول مسلمانوں کی طرح ہاتھ آگے بڑھاتا تو نہ ملانے پر دنیا بھر میں بھارت کی رسوائی ہوتی۔ لیکن زبردستی قوم پر مسلط کیا گیا یہ نااہل وزیر خارجہ ایسی گھٹیا حرکت نہ کرتا تو پھر ایکسپوز کیسے ہوتا۔
میں نے اپنے صحافتی کرئیر میں پہلی مرتبہ یہ دیکھا ہے کہ کسی ملک کا وزیر خارجہ آفیشل دورے پر جاتا ہے اور صرف اپنے سرکاری ٹی وی اور کرائے کے چند کان ٹوٹے صحافیوں سے گفتگو کرتا ہے ۔ یہ کیسا دورہ تھا جس میں پی ٹی وی کے علاوہ انٹرنیشنل اور بھارتی میڈیا ہی نہیں تھا۔
شاید اس کی بڑی وجہ پیپلزپارٹی کا سیاسی بیک گراونڈ تھا کیونکے جس پارٹی نے 30 سال ملک کو لوٹا ہو اور پارٹی کا سربراہ مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مہشور ہو تو اسکا بیٹا کیسے غیر ملکی صحافیوں کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر سوالات کے جوابات دے سکتا تھا۔ انہوں نے تو ایسے ایسے سوالات کرنے تھے جس سے بلاول کے ناکام دورے کی تمام ناکامیاں کھل کر سامنے آجانی تھیں ۔ آصف علی زرداری کے ٹکروں پر پلنے والے دو درجن لفافہ صحافی جو بلاول کے ہمراہ بھارت گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے بلاول بھٹو سے ہاتھ ملایا تھا جو ان کی بہت بڑی کامیابی ہے یہ لفافہ صحافیوں کی ذہنی غلامی کا حال ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں جب بلاول سے بات کر رہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی دہشتگرد ملک کے سپوک پرسن سے بات کر رہا ہوں ۔ جے شنکر تھوڑا انتظار کرو جب پاکستان کے حقیقی وارث اسے سنبھالیں گے تو تمیں منہ توڑ جواب بھی دیں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ اصل دہشت گرد کون ہے۔ بلاول بھٹو میں اتنا دم نہیں کہ وہ بھارت کو منہ توڑ جواب بھی دے سکتا کیونکہ نا تجریہ کار اور نااہل بلاول بھٹو کو رجیم چینج طاقت کے زور پر ملک پر مسلط کیا گیا۔
امریکہ بہادر کی جانب سے زبردستی مسلط کئے گئے ٹولے نے ایک سال میں پاکستان کو تاریخی تباہی وبربادی سے دو چار کیا۔ اس رجیم چینج آپریشن میں بلاول بھٹو اہم ترین مہروں میں سے ایک تھا۔ اب ایک سال ہوگیا ہے یہ زبرستی مسلط کیا گیا ٹولہ عوام سے ان کا حق رائے دہی چھین کر بیٹھا ہے۔ آئین کو قدموں تلے روند رہا ہے، معیشت کو تباہ کرچکا ہے۔ پاکستان کی ساری دنیا میں بدنامی کا مؤجب ہے اور آپ کہتے ہیں کہ آخر بلاول پاکستان کا وزیر خارجہ تو ہے ناں۔