کالم و مضامین

تھانہ کلچر

تحریر: چوہدری عابد محمود

متعدد تھانوں کی عمارتیں بوسیدہ ہیں ،دوسروں کو سکیورٹی دینے والوں کی اپنی کوئی سکیورٹی نہیں۔24/7 ڈیوٹیاں سرانجام دینے کے بعد سونے کے لئے محفوظ چھت نہیں ، لیٹنے کے لئے مناسب بستر اورچارپائیاں نہیں، گھر جانے کے لئے سواری کا انتظام نہیں۔

ٹوٹی ہوئی خستہ حال دکانیں، بوسیدہ عمارتوں میں قائم بھوت بنگلوں کو ہم تھانے کا نام دے کر اس تھانے کا کلچر ناروے اور امریکہ کے برابر کر نا چاہتے ہیں۔ ترکی سے ماہر منگوا کر ان تھانوں میں بسنے والے اہلکاروں کی زہنی ، اخلاقی اور قانونی تربیت ہماری پہلی ترجیحات میں شامل ہے ۔

عقل انسانی کا اس سے بڑا کارنامہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہم ایم این اے، ایم پی اے کی سفارش پر بھرتی ہونے والے پولیس اہلکاروں کو جن کی ٹریننگ صرف گھاس کاٹنے اور Law and Orderکی ڈیوٹیاں کرتے ہوئے گزرگئی۔ جن کو آتے ہی ایس ایچ او یہ کہتا ہے کہ گشت 12 گھنٹے کرنی ہے اور موٹر سائیکل کے تیل کا بندو بست اپنی جیب سے کرنا ہے اگر موٹر سائیکل پنگچر ہوتا ہے یا خراب ہوتی ہے تو ٹھیک بھی پولیس اہلکاروں نے اپنی جیب سے خود کروانا ہوتی ہے۔

اگر کبھی پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے راستے میں موٹر سائیکل بند ہو جانے کے باعث دیر ہو جائے توایس ایس پی کی طرف سے شوکاز نوٹس جاری کر دیا جاتا ہے ۔ جس کو سال بھرنئی وردی ،جو تے ، کوٹ ، جرابیں نہیں ملتیں بلکہ ہر امیر آدمی ،صحافی ، وکیل یا سیاستدان کا رشتہ دار اس کی وردی کو گھور کردیکھتا ہے ، جس کے پاس سردیوں کے لئے سرکاری جیکٹ نہیں اور لنڈے سے خریدنے کے لیے جیب میں پیسے نہیں جس کے پاس بچوں کے سرچھپانے کے لئے سرکاری گھر نہیں۔

تنخواہ میں اتنے پیسے نہیں کہ وہ بیوی بچوں کے لئے کرائے پر گھرمیں رہائش اختیارکر سکے ۔ جو اپنے بیوی بچوں ، والدین ، بہن بھائیوں سے دور رہ کر ذہنی مریض بن جاتا ہے جس کے پاس تھانے میں آرام کرنے کے لئے چارپائی اورالگ کمرہ نہیں ، غسل اور حاجت کے لئے صاف ستھرا غسل خانہ نہیں ، یونیفارم دھونے اور استری کرنے کے لئے سرکاری دھوبی نہیں۔

تھانوں کی دیواریں سیم ،وسیلن زدہ ، تاریں لٹکتی ہوئی ،ننگی بجلی کی تاریں، کچے فرش ، جہاں سردیوں کے موسم میں نہ تو گدے اور نہ ہی رضائیوں اور تکیے کا کوئی انتظام موجود ہو ایسے حالات میں پولیس ملازمین کے رویوں میں چڑچڑا پن نمایاں ہوا۔

اگر کسی تھانے کی حوالات میں کوئی ملزم اوزار بند گلے میں ڈال کر خود کشی کر لے تو اس کا مقدمہ بھی پورے تھانے پر درج ہوجاتا ہے یاغسل خانہ نہ ہونے کی بدولت حوالات سے باہر لے جاتے ہوئے ایک سنتری کے ہاتھ سے ہتھکڑی چھڑا کر بھاگ جانے والے یا گرمیوں میں پنکھے سے لٹک کر اور اگر پنکھا نہ ہوتو گرمی کی شدت کی بدولت مر جانے والے ملزم کا پر چہ بھی تھانے میں موجود پولیس ملازمین پر ہی درج ہوتا ہے۔ پھر بریکنگ نیوز چلتی ہے، کہ اعلیٰ افسران نوٹس لیکر پولیس کی ناکامی کے رونے روئے جاتے ہیں۔

تشدد اور غیر انسانی سلوک کے بے جا الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ انکوائری کے لئے اعلی افسران مقرر ہوتے ہیں اور ان کے مشیران اپنے ہی بھائیوں کا رزق چھیننے کے لئے نئے نئے مشورے دیتے ہیں۔ قانون کی تمام کتابیں کھول لی جاتی ہیں۔ دفتروں میں بیٹھ کر لکھی جانے والی ایس او پیز اورمراسلے کے حوالے دیئے جاتے ہیں اور یوں نوکری کے بھو کے حق بات کہنے سے خوف زدہ اور جی حضوری کے ماہر، صرف ایک شاباش کے لئے بے گناہ ملازمین کو گناہ گار قرار دے کر دادِ تحسین حاصل کرتے ہیں۔

تھانے میں 24/24 گھنٹے نوکری کرنے اور اپنی صحت کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملازمین کی مشکلات کو کم کرنے کی بجائے خوب نچوڑا جاتا ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ زکر ہے کہ اگرکسی اہلکار کے گھر میں کوئی غمی خوشی، شادی بیاہ کی کوئی تقریب ہو توپہلے ہی بتادیا جاتا ہے کہ چھٹیاں بندہو چکی ہیں جبکہ عید ، محرم اور دیگر مذہبی تہوار کے موقع پر بھی مراسلے کا حوالہ دیکر خبردارکردیا جاتا ہے کہ اعلیٰ افسران کی طرف سے چھٹیاں بند ہیں ، اس طرح پولیس ملازمین اپنے پیاروں سے دور نوکری کرنے پر مجبور ہیں جس کے باعث پولیس ملازمین نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں ۔

چند دہائیاں قبل ہر تھانے میں ایک پولیس اہلکار بطور ڈی ایف سی خدمات سرانجام دیتا تھا جو تھانے میں موجود سارے علاقے کی خبرگیری رکھتا تھا ا سطرح چور، ڈاکو، بدمعاش قبحہ خانے ، جواء خانے سمیت جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی تھانے میں کرتا تھا جس کیوجہ سے جرائم نہ ہونے کے برابر تھے،پولیس ملازمین کے لئے تھانوں میں میس سسٹم ہوتا تھا تھکے ہارے آنے والے ملازمین کو تازہ روٹی میسر ہوتی تھی ، جس کیوجہ سے ملازمین خوشی کے ساتھ ڈیوٹیاں سرانجام دیتے تھے، افسران کو چاہیے کہ ملازمین کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائیں تاکہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے والے بہتر انداز میں خدمات سرانجام دے سکیں۔

پولیس ملازمین سے بھی دوسرے اداروں کے ملازمین کی طرح 8 گھنٹے ڈیوٹیاں لی جائیں اور ہفتے میں 1 چھٹی دی جائے بدقسمتی سے محکمہ پولیس میں کام کرنے والے ملازمین کو سخت سے سخت سزائیں دی جاتی ہیں اور کام نہ کرنے والے ملازمین کو تعریفی اسناد اور نقد انعامات سے نوازہ جاتا ہے جس کیوجہ سے کام کرنے والے اہلکار بھی جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ملکر جرائم کی دنیاء کا حصہ بن جاتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

ایک تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button