کالم و مضامین

نوسرباز الیکٹیبلز کی نئی سیاسی جماعت کا مستقبل

تحریر: میاں افتخار رامے

پاکستان کی75 سالہ تاریخ پر نظر دوڑیں تو مختلف ادوار میں سیاسی اتحاد اور سیاسی جماعتیں ٹوٹتی اور بنتی آئی ہیں سب سے پہلے 1956 میں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور صدر اسکندر مرزا نے اقتدار کو تول دینے کیے ریپبلکن پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد 1962 میں جنرل ایوب نے ” کنونشن مسلم لیگ” کی بنیاد رکھی۔

جنرل ضیاء الحق کی طیارے حادثہ میں شہادت کے بعد 1988 میں الیکشن سے پہلے "اسلامی جمہوری اتحاد” کے نام سے نئی پارٹی تشکیل دی گئی۔ اس کے کچھ عرصے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کے بطن سے مسلم لیگ نون پھوٹی۔ 1999 میں جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگائی اور 2002 میں الیکشن کروانے کے لیے مسلم لیگ ن کو توڑ کر ق لیک بنائی گئی۔

اسی طرح 2018 کے انتخابات سے صرف چار ماہ پہلے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا قیام عمل میں آیا جس میں ق لیگ اور ن لیگ کے منحرف ارکان نے شمولیت اختیار کی۔ 2018 میں ہی جنوبی پنجاب کے لیے متحدہ محاذ کے قیام کا اعلان ہوا جو بعد میں تحریک انصاف میں ضم ہوگیا تقریباؐ ایسا کچھ اب بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔

فواد چوہدری، عمران اسماعیل، علی زیدی، عامر کیانی وغیرہ کی عمران خان اور سیاست سے علیحدگی کے اعلان کی سیاہی اور آنسو ابھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے جہانگیر ترین کے ہاتھ پر بعیت کر دی۔ جہانگیر ترین نے علیم خان اور تحریک انصاف چھوڑنے والے بڑے ناموں کے ہمراہ استحکام پاکستان پارٹی کا اعلان کردیا۔ اس پارٹی میں 100 سے زائد ایم پی اے اور ایم این اے شامل ہیں۔

تحریک استحکام پارٹی میں شامل ہونے والے رہنما وہ ہی ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کی قیادت میں ایک مضبوط منشور کے ساتھ سیاست کی ، اپنے مضبوط منشور کے باعث عوام میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں جنہوں نے عمران خان نیازی کی سربراہی میں دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔

یہ وہ ہی لوگ ہیں جنہوں نے کرپشن فری پاکستان، مدینہ کی ریاست ،سود سے پاک نظام، آئی ایم ایف کے چنگل سے آزادی ،پچاس لاکھ گھر،ایک کروڑ نوکریاں اور بہت سے وعدوں کی بنیاد پر حکومت بنائی تھی لیکن افسوس یہ حکومت اپنی آئینی مدت بھی پوری نہ کر سکی ۔

رجیم چینج آپریشن کے ذریعے اسے گرا دیا گیا اور اقتدار کرپشن کے بے تاج بادشاہ خاندانوں کے حوالے کردیا گیا۔ جنہوں نے ملک کے ساتھ سوتیلے بچے والا سلوک کیا۔ کرپشن کے عادی مجرموں نے اقتدار ہاتھ لگتے ہی زرداری اور فضل الرحمان کے ساتھ ملکر اپنے تمام کیسز معاف کروائے اور اقتدار کے مزے الگ لوٹ رہیے ہیں۔

یہ وہ ہی لوگ ہیں جب 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتاریاں شروع ہوئی تو ایک ایک کرکے سب نے پریس کانفرنسز کی اور پارٹی سے اظہار لاتعلقی ظاہر کر کے کھسکتے گئے، سیاست دان وہ ہوتے ہیں جو ہر مشکل گھڑی میں اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے رہیں، مشکلات ہی تو اصل امتحان ہوتا ہے، یہیں سے تو اندازہ لگایا جاتا کون سیاست دان ہے اور کون بھگوڑا۔

یہ وہ ہی بے ضمیر اور مردہ لوگ ہیں جو ہفتہ ہفتہ جیل رہ کر لانے والوں کے دباؤ میں آکر اپنے لیڈر کا ہی ساتھ چھوڑ گئے۔ اگر یہ سیاست دان ہوتے تو اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے رہتے۔ آپکا لیڈر تو آج بھی کھڑا ہے،اکیلا کھڑا ہے، تن تنہا کھڑا ہے۔

اب یہی لوگ نئی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں اب ایک نئے منشور کے ساتھ اپنی سیاست کو دوبارہ چمکائیں گے، عوام کو بیوقوف بنائیں گے ،سبز باغ دکھائیں گے ،خود کو سچا پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں گے لیکِن یاد رکھنا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کئی بار اقتدار میں آکر جمہور کے ساتھ گیم کھیل کر اپنی دکانداری چمکائی،اور یہ پھر چمکائیں گے ،یہ تمام سیاست دان نہیں بلکہ کمیشن خور اور کرپٹ لوگ ہیں ۔ جو اپنے مفادات کے لیے اپنے آقاؤں کے حکم پر کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

متعلقہ مضامین

ایک تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button