کالم و مضامین

پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان رسہ کشی بڑھ گئی

تحریر: میاں افتخار رامے

کل دنیا نیوز کے دیرینہ ساتھی اور بہت پیارے دوست کے گھر میری افطار پارٹی تھی۔ وہاں پر میرے علاوہ دو بڑی شخصیات بھی شریک تھیں۔ افطار کے بعد کچھ انرجی بحال ہوئی تو محفل میں شریک ایک دوست نے عدالتی اصلاحات کا جو بل اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوا تھا اس پر گفتگو شروع کردی ۔

ایک صحافی دوست کا کہنا تھا کہ حکومت کو منہ کی کھانا پڑی گی کیونکہ آئین پاکستان نے سپریم کورٹ کو اپنے قوانین بنانے کا اختیار دے رکھا ہے تو حکومت کیسے اپنی من مرضی کے مطابق عدالتی اصلاحات کر سکتی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ سپریم کورٹ کبھی بھی اس بل کو تسلیم نہیں کرے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعرات کے روز ہونے والی سماعت کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روک دیا، اور اس کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا جس کے مطابق بل کے ذریعے عدلیہ کی آزادی میں مختلف طریقوں سے براہ راست مداخلت کی گئی ہے، بل قانون کا حصہ بنتے ہی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت شروع ہو جائے گی،بل پر عبوری حکم کے ذریعے عملدرآمد روکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

یہ خبر جب میڈیا پر نشر ہوئی تو حکومی اتحاد نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا کہ ہم سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کی جانب سے پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 پر تاحکم ثانی عمل روکنے کے حکم کو مسترد کرتے ہیں ۔ حکومت اتنا گھبرائی ہوئی اور ڈری ہوئی ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کرنا کیا ہے ۔ کبھی کہتے ہیں کہ فل کورٹ بنایا جائے ہمیں تین ججز کا فیصلہ قبول نہیں ۔ اب جب 8 ججز نے عدالتی اصلاحات کے بل پر عمل درآمد روکا تو کورٹ کا یہ حکم بھی حکومت کو ناگوار گزرا اور اسے تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ الیکشن سے فرار کے لیے حکومت بغیر سوچ و بچار کے ہر وہ غلط کام کر رہی ہے جو آنے والے دنوں میں انکے لیے مزید پریشانیاں پیدا کر دے گا۔

جس دن حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا میں نے اسی دن اپنے کالم میں بتایا تھا کہ حکومت نے اڑتا تیر ہاتھ میں لے لیا ہے جو ان کے گلے پڑ جائے گا ۔ آئین نے چیف جسٹس کو اختیارات دیئے ہیں تو پارلیمنٹ کیسے ان پر قد غن لگا سکتی ہے ۔ حکومت نے شاید آئین کو پڑے بغیر جلد بازی میں الیکشن سے فرار اختیار کرنے کے لیےیہ سارا ڈرامہ کیا جو اب فلاپ ہونا شروع ہوگیا ہے اور جلد مکمل ناکام بھی ہوجائے گا۔

حکومت اور اتحادیوں کی جانب سے عدلیہ کے خلاف جو مہم چلائی جارہی ہے اور عدالتی فیصلوں کو نا ماننے کی سرعام باتیں ہو رہی ہیں یہ انتہائی افسوس ناک اور تشویش ناک ہے۔ کورٹ کے فیصلوں سے اختلاف رائے رائے رکھنا ہر کسی کا آئینی حق ہے۔ ان فیصلوں میں موجود خامیوں کو ڈسکس کرنا اور اپنی تنقید کا حصہ بنانا بھی جائز ہے ۔ لیکن ان پر عمل درآمد نا کرنا یا ان فیصلوں کے خلاف بغاوت کرنا ریاستی امور میں خلل ڈالنے کی کوشش ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

کوئی بھی سیاسی شخصیت ، جماعت یا ادارہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے بغاوت نہیں کر سکتا ۔ بلکے فیصلے میں موجود قانونی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کی پورا حق رکھتا ہے۔ جو بیان حکومت اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے سامنے ا رہے ہیں یہ ملک کے ساتھ ظلم ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود خامیوں سے حکومت قانونی جنگ لڑے لیکن ان کو ماننے سے انکار کر کے ریاست سے بغاوت نا کرے ۔۔۔!!!!

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button