
پاکستان میں 9 مئی 2023 کو لگنے والی آگ پر تو قابو پالیا گیا لیکن ان تمام واقعات کا ذمہ دار پی ٹی آئی کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حالانکہ حکومت نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمران خان کو فلمی انداز میں عدالت کے ڈائری روم کے شیشے توڑ کر گرفتار کیا اور پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس چار روز کے لیے بند کی گئی تاکہ ملکی حالات خراب ہونے کا بہانہ بنا کر الیکشن سے فرار اختیار کی جائے یا تو قومی اسمبلی کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کی جائے یا پھر مارشل لاء لگایا جائے لیکن ایک مرتبہ پھر اسکرپٹ رائیٹر اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
اسکرپٹ رائٹر کی جانب سے پلان اے ناکام ہونے کے بعد پلان بی پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ چار دن پہلے میڈیا چینلز کو احکامات دئیے گئے کہ عمران خان کے خلاف زیادہ سے زیادہ خبریں لگائی جائیں۔ مین اسٹریم میڈیا پر چار روز سے بار بار ایک ہی خبر چلوائی جا رہی کہ جناح ہاؤس جو کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ ہے اسے شرپسند عناصر نے جلا دیا ہے۔
یہاں پر یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ یہ گھر جناح نے اکتوبر 1943 میں خریدا ضرور تھا لیکن اس میں کبھی رہائش اختیار نہیں کی تھی کیونکہ جنوری 1944 کو پنجاب حکومت نے انڈر ڈیفنس آف انڈیا رول کے تحت اسے آرمی میس بنا دیا تھا۔ قائد اعظم نے کوشش کی کے کورٹ کے ذریعے اسے واپس لیا جائے۔ لیکن نہیں ملا سکا۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد اسے "جی او سی” ہاؤس بنا دیا گیا پھر 1965 میں اسے کور کمانڈر ہاؤس میں تبدیل کیا گیا۔
لیکن اب اسے جناح ہاؤس کے نام سے منسوب کرکے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے دو دن میں جناح ہاؤس کو جلانے والے شر پسند عناصر کی شناخت بھی کر لی۔ لیاقت علی خان ، بے نظیر بھٹو ، ارشد شریف ، اے پی ایس اور ماڈل ٹاؤن جیسے بڑے واقعات میں ملوث افراد کی تو آپ آج تک شناخت نہیں کر سکے۔ آخر کون ان سب واقعات میں ملوث افراد کی تحقیقات کرے گا اور کب ان خاندانوں کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔ تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی پر یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس وقت سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف تعصبات اور نفرتیں اس مقام پر لے گئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے کے خلاف ہی استعمال کیا جا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ ایسے ہی استعمال ہوتے رہیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس دفعہ کافی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے کہ ان کے پروپیگنڈے کو بھی پی ٹی آئی نے موثر انداز سے دفاع کیا ہے اور وہ کوئی خاص ہمدردی حاصل نہیں کرسکے۔
کاش اس وقت پی ڈی ایم والوں کو کچھ شرم کچھ حیا آجائے اور وہ الیکشن کا اعلان کردیں اور اپنے زور بازو سے میدان میں اتریں۔ یقین کریں آج بھی پی ڈی ایم یہ نعرہ لے کر چل پڑے کہ ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے ہمیں بدنام کیا گیا ہے، اسٹبلشمنٹ نے ہمیں استعمال کیا ہم اس پر ہم شرمندہ ہیں تو ان کی عوام میں پزیرائی دوبارہ قائم ہونا شروع ہو جائےگی لیکن مستقبل قریب میں بھی ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
75 سالوں میں باریاں لینے والی دو جاگیر دار جماعتیں جو اپنی تقریروں میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹ کر باری باری کا وعدہ کرکے الیکشن الیکشن کھیلتی تھیں۔ عوام کا خون چوس کر اپنے اندرونی اور بیرونی آقاؤں کو بھی خوش رکھتی تھیں آج عمران خان کے نام سے خوف کھا رہی ہیں اور الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اپنی آخری حد تک چلی گئی ہیں۔ انہوں نے پورے ملک کو افراتفری کا شکار کردیا ہے۔ نام نہاد جمہوری قوتوں اور غیر جمہوری طاقتوں کا یہ عمل انتہائی افسوسناک ہے۔