کالم و مضامین

ہمیں قدرت کی طرف لوٹنا ہو گا

موجودہ جدید سائنسی دور میں انسان کائنات کو مسخر کر رہا اور زمین کی پاتال تک پہنچ چکا ہے۔ نت نئی سائنسی ایجادات اور میڈیکل سائنس میں جدت لا رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اتنی ہی زیادہ مشکلات میں بھی دھنستا جا رہا ہے۔

سائنسی ایجادات نے انسان کو مشینوں کے تابع بنا کر آرام طلب اور سہل بنا دیا ہے اس کے ساتھ طب میں جتنی زیادہ ترقی کر رہا ہے اور ہر لا علاج بیماری کا علاج دریافت کر رہا ہے، وہیں نئی نئی بیماریوں کو بھی جنم دے رہا ہے، غرض جتنی بیماریوں کا علاج کھوج چکا ہے اس سے دگنے نئے مرض بھی سامنے آ رہے ہیں ۔

انسان پہلے پیدل سفر کرتا تھا تو زکام بخار یا سر درد کے علاوہ شاید ہی کوئی موذی مرض میں مبتلا ہوتا تھا، پھر سائیکل کی ایجاد ہوئی، تب بھی اس کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑا مگر اہستہ آہستہ گاڑیاں ہماری زندگی کا حصہ بنی اور ہم نے چھوٹے سے چھوٹے سفر کے لیے بھی اس کا سہارا لے لیا، اس آسانی کا نقصان ہمیں صحت خرابی کی صورت میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔

پہلے شہر بہت کم اور دیہات زیادہ تھے، اکثریت لوگ کھیتی باڑی کرنے کے لیے کھیتوں میں ہل چلاتے تھے، سادہ غذا کھاتے تھے جو اپنی زمین کی پیدا کردا تھی۔ زرعی اجناس اور سبزیوں میں ٹیوب ویل یا بارش کا اکٹھا کیا گیا پانی لگایا جاتا تھا۔ کوئی کھاد یا سپرے نہیں کیا جاتا تھا، زیادہ سے زیادہ جانوروں کے فضلے سے بنائی ہوئی کھاد کا استعمال ہوتا تھا تو سبزیاں اور اجناس خالص ترین ہوتی تھیں۔

کنوئیں اور چشموں کا قدرتی پانی پیا جاتا تھا مگر کبھی پیٹ کی بیماری پیدا نہیں ہوتی تھی۔ سبزیاں تازہ اور بغیر غیر قدرتی طریقہ افزائش سے تیار دستیاب ہوتی تھیں اور کھانا پکانے کے لیے لکڑی سے آگ جلائی جاتی تھی۔ پکانے اور کھانے کے لیے مٹی کے برتن ہوتے تھے، تندور میں روٹی پکائی جاتی تھی۔

دیسی گھی اور مکھن کا استعمال ہواکرتا تھا، گھر میں لگی مرچ ، گھر میں لگا دھنیا غرض ہر مصالحہ گھر کا ہوتا تھا جس سے ہانڈی کا ذائقہ اور روٹی کی خوشبو سو فیصد قدرتی تھے۔ اگر کوئی بیمار ہو جاتا ہے اس کے علاج کے لیے بھی سب کچھ قدرتی تھا۔

حکماء قدرتی جڑی بوٹیوں کے مرکب سے دیسی اور سادہ ادویات بناتے تھے جو صحت کے لیے کسی صورت نقصان دہ نہیں تھے، یہی وجہ تھی کہ مہلک بیماری کا کہیں نام و نشان موجود نہ تھا۔ پھر میڈیکل سائنس جیسے جیسے ترقی کرتی گئی موذی امراض بھی پیدا ہوتے گئے اور آج ہر بیماری کا علاج اور ادویات دستیاب ہوتے ہوئے بھی کوئی انسان ایسا نہیں جسے کوئی چھوٹی یا بڑی بیماری لاحق نہ ہو۔

موجودہ دور میں دو اہم وجوہات کی بنا پر ہمیں دوبارہ قدرت کی طرف جانا ہو گا، پہلی وجہ یہ بیماریاں ہیں جو ہر کسی کو لاحق ہیں اور دوسری بڑی اور اہم وجہ بیروزگاری اور مہنگائی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مہنگائی کا قدرتی طرف زندگی سے کیا تعلق ؟ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بیروزگاری کی وجہ سے آپ کھانے پینے کی اشیاء آسانی سے خریدنے سے قاصر ہیں جس کی شرع میں مزید اضافہ ہوتانظر آ رہا ہے۔

اس کے لیے آپ نے دو کام کرنے ہیں، پہلا کام یہ کہ آپ خود کو مشینوں سے آزاد کروانا ہو گا، چھوٹے چھوٹے سفر کے لیے موٹر سائیکل اور گاڑی کی بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دینی ہو گی، گھر کے چھوٹے بڑے کاموں کو خود اپنے ہاتھ سے کرنے کا عادی بنانا ہو گا، اس سے آپ کو دوفائدے ہوں گے، ایک تو آپ کی صحت اچھی ہو گی اور دوسرا ایندھن کے اخراجات کم ہوں گے۔

دوسرا اہم کام کچن گارڈننگ، تقریباً ہر گھر میں چھوٹا صحن موجود ہوتا ہے اور کچی جگہ بھی، جہاں کچی زمین نہیں وہاں کچھ حصہ سے فرش اکھاڑ کر مٹی ڈالی جا سکتی ہے۔ آپ اپنے گھر کی چھوٹی سی جگہ پر سبزیاں کاشت کر سکتے ہیں جن میں ٹماٹر، ہری مرچیں، دھنیا، پودینہ، پالک اور لیموں روزمرہ استعمال کی سبزیاں ہیں اور یہ سبزیاں چھوٹی سے چھوٹی جگہ پر بھی باآسانی لگائی جا سکتی ہیں۔ جہاں کوئی صحن موجود نہیں وہاں چھت پر پلاسٹک کے بے کار برتنوں میں یہ چیزیں لگائی جا سکتی ہیں۔

کچن گارڈننگ سے آپ کو تقریباً دو سے تین سو رپے کی سبزی روزانہ اپنے گھر سے مفت دستیاب ہو سکتی ہے، اس سے آپ پر مہنگائی کا بوجھ کچھ حد تک کم ہو جائے گا۔ جن گھروں میں جگہ زیادہ ہے وہاں آپ مولی، گاجر اور شلجم بھی لگا سکتے ہیں۔ موجودہ مہنگائی اور قوت خرید کم ہونے کے باعث غریب اور مڈل کلاس لوگوں کے کیے کچن گارڈننگ انتہائی ضروری ہو چکی ہے۔

رات کو صحن یا کھلی جگہ سونے کی عادت ڈالیں۔ مچھر دانی کا استعمال آپ کو مچھروں سے محفوظ رکھے گا اور کمروں کے اندر دو دو پنکھے یا اے سی چلانے کی وجہ سے خرچ ہونے والی بجلی کی بچت ہو گی۔ دوسرا کھلی فضا میں سونے سے آپ کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اب کھیتی باڑی تو کر نہیں سکتے اس کی بجائے صبح کی سیر کو معمول بنائیں، بالکل ایسے ہی جیسے پرانے زمانوں میں لوگ سورج نکلنے سے پہلے اپنے کھیتوں میں جانے کے لیے نکل پڑتے تھے۔ بچوں کو ٹی وی اور موبائل سے نکالیں اور انہیں کھیل کود کے لیے باہر جانے کا موقع دیں تاکہ وہ صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں اور ان میں خود اعتمادی آئے۔ (مگر ان پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ کھیلنے کے لیے ہی گئے ہیں )۔

چھوٹے بچوں کو کچھ وقت کے لیے کھلا چھوڑیں کہ وہ صحن میں مٹی میں کھیلیں کیونکہ مٹی میں کھیلنے سے بہت سے بیماری پھیلانے والے جراثیم مر جاتے ہیں، اس سے بچوں کی بیماریوں پر اٹھنے والے اخراجات میں نمایاں کمی آئے گی۔

انٹر نیٹ کے دور میں موبائل کی وجہ سے ہم سوشل تو ہوتے ہیں مگر حقیقت میں سوشل نہیں رہے کہ ہم ایک چھت تلے چار لوگ آپس میں بات کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ محلے میں کسی جگہ شام کو اکٹھے بیٹھے کا اہتمام کریں۔

آپس کے مسائل ایک دوسرے سے سنیں اور ان کے حل کے لیے گفتگو کریں، اس سے آپ کے ذہنی دباؤ اور پریشانی میں کمی آئے گی اور ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ بھی ہوں گے اور ایک دوسرے کی مدد بھی کر سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ محلے داروں میں وہی پہلے والا خلوص پیار و محبت پیدا ہو گی۔ ہمارے آدھے مسائل اور پریشانی کا حل آپس میں تبادلہ خیال کرنے میں ہی چھپا ہے۔

پاکستان کی موجود بیروزگاری اور مہنگائی میں اب انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ ہم واپس قدرت کی طرف لوٹیں شاید ایک یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ ہم اپنے لیے کچھ آسانیاں پیدا کر سکیں۔

 

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button