
جب سے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بطور کمانڈر چارج سنبھالا ہے محکمہ پولیس میں وہ اصلاحات ہوئیں جس کا شاہد فورس کا ہر سپاہی اور افسر خواں تھا اور اگر سوشل میڈیا پر آئی جی پنجاب کے خلاف کوئی چھوٹی سی پوسٹ بھی آئے تو اس کے دفاع میں فورس کا ہر افسر اور سپاہی میدان میں آ جاتا ہے۔
لیکن افسوس ان سب اصلاحات کے باوجود اس محکمے میں اب بھی کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو اس محکمے کی بدنامی کا سبب بنتی ہیں لیکن وہ کالی بھیڑیں گنتی کی ہی ہیں جن کا طریقہ واردات یا تو کسی سیاسی کے تلے چاٹ کر کوئی سرکل یا تھانہ لے لیتے ہیں یا پھر اپنے اوپر بیٹھے سیاسی آقاؤں کی فرمانبرداری کرنے والے کو خوب مال کھلاتا ہے۔ کچھ بزرگوں نے تو ایسے ہوتے دیکھا ہو گا اور ہم نے بہت عرصہ تک یہ سنا کہ پولیس اپنے ساتھ ڈاکو لاتی تھی اور وارداتیں کرواتی تھی۔
یہ بات اس میڈیا کے دور میں کسی انہونی سے کم نہیں لگتی لیکن انسان ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے جب وہ تھانہ گوجرخان سرکل گوجرخان میں ہونے والی ڈکیتیوں اور چوریوں پر نظر ڈالتا ہے۔ کسی صحافی کی تحریر میں اگر پڑھے کہ درجنوں وارداتیں ہوئیں تو ہر پڑھنے والا فوری حیران ہوتا ہے اور افسران فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے ایکشن لیتے ہیں جو نظر بھی آتا ہے۔
لیکن آپ یہ پڑھ کر شدید حیران ہونگے کہ درجنوں نہیں سینکڑوں وارداتیں ہونے کے باوجود بھی نہ تو آر پی او راولپنڈی نے نوٹس لیا اور نہ ہی سی پی او راولپنڈی ایکشن میں آئے اب وجوہات جیسے کے میں اوپر بیان کر چکا ہوں وہی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ خطرناک معاملہ تو یہ ہے کہ جو کہانی پولیس کے متعلق ہم سنتے آئے ہیں وہ عملی طور پر اس میڈیا کے دور میں سرکل گوجرخان میں نظر آنا شروع ہو چکی ہے۔
ڈی ایس پی اپنے سرکل کے تمام تھانوں کا انچارج ہوتا ہے اور اگر اس کے اپنے آفس کے باہر سے ہی موٹرسائیکل چوری ہو جائے اور پھر ایک نہیں دو نہیں دس نہیں پچاس نہیں بلکہ سینکڑوں وارداتیں ہو چکی ہوں اور آپ اپنے سرکل کے تھانوں کی کارکردگی بے نقاب ہونے کے خوف سے افسران کو ماموں بناتے ہوئے ان مقدمات کا اندراج بھی نہ ہونے دیں تو پھر یہ بات ماننے کے علاؤہ انسانی عقل کے پاس دوسری کوئی رائے باقی نہیں رہتی کہ یہ وہی پرانے جراثیم ہیں جب ہم سنا کرتے تھے کہ ایس ایچ او ڈی ایس پی اپنے ساتھ ڈکیت لایا کرتے تھے اور ڈکیتیاں کروایا کرتے تھے۔
راقم کی بطور صحافی ذمہ داری صرف اتنی ہی ہے کہ وہ نشاندہی کرے اور مردہ ضمیروں کو تھوڑا سا جھنجھوڑا دے دے۔باقی یہ موصوف ڈی ایس پی گوجرخان جہاں بھی تعینات رہے وہاں آف کی ریکارڈ وارداتیں چیک کی جا سکتی ہیں۔ اب اتنی زیادہ وارداتوں کے باوجود بھی محکمہ پولیس اپنی ان کالی بھیڑوں کے خلاف حرکت میں نہ آئے تو پھر کسی مسیحا کے منتظر رہنا چاہے کہ شاہد کوئی انہونی ہو اور اللہ کی پکڑ میں آ جائیں ذمہ داران۔
بہرحال افسوس کے سوا کوئی چارہ نہیں آئی جی پنجاب جتنی مرضی اصلاح کر لیں جب تک سزاؤں کا عمل تیز نہیں کرینگے تب تک نئی نسل پرانی کہانیوں کو عملی طور پر ہوتا دیکھنے سے محروم نہیں رہ سکتی۔ اللہ پاک میرے ملک پاکستان کی خیر فرمائے اور بالخصوص گوجرخان کے رہائشیوں پر رحم کرے کیونکہ جب تک پرانی کہانیاں زندہ کرنے والے پنجاب پولیس میں موجود ہیں تب تک ایسے رکھوالوں کے سائے تلے عوام لٹتی رہی گی۔