کالم و مضامین

جہلم کی کہانی ۔دودھ کا دود ھ پانی کا پانی

تحریر: محمد امجد بٹ

پرانے زمانے کی بات ہے بادشاہ سلامت نے اپنی رعایا سے اپنے سے کی جانے والی محبت کے امتحان کی ٹھان لی۔ بادشاہ جو رعایا کے لئے کسی ابن فرعون سے کم نہ تھا ڈنڈے کے زور پرعزت کروانے کاخواہاں تھا۔اس نے اپنے ذاتی چمچوں سے مشورہ کیا کہ محبت کا یہ امتحان کیسا ہونا چایئے۔متعدد مشوروں کے بعد طے یہ پایا کہ بادشاہ سے رعایا کی کی جانے والی محبت کا یہ امتحان خفیہ طریقے سے ہونا چاہیے جس کا کیسی بھی طرح عوامی حلقوں کو پتا نہ چل سکے اورباد شاہ سے رعایاکی محبت کا نتیجہ اخذ کیا جا سکے۔

آخرایک دن آ ہی گیا جب رعایا کو یہ حق دیا گیا کہ وہ بادشاہ سے اپنی محبت کا کھل کر اظہا ر کر سے۔سرکاری طور پر منادی کر دی گئی کہ باد شاہ سلامت کو خالص دودھ کی ضرورت پڑ گئی ہے لہذاجو جتنی اسطاعت رکھتا ہے اپنی بساط کے مطابق دودھ لائے ۔باد شاہ سلامت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ عوام میں غریب و امیر کے تصور کو بالائے طاق رکھا جائے اور رات کی تاریکی میں رعایا دودھ قدیمی تالاب میں ڈالتی جائے اور تالاب کو کناروں تک بھر دیا جائے ۔

بادشاہ کی محبت کا امتحان شروع ہو گیا۔رات بھر عوام اس قدیمی تالاب میں دودھ ڈالتی رہی ادھر رات بھر بادشاہ کے چمچے اسکی چاپلوسی میں لگے رہے کہ صبح تک تالاب اگر دودھ سے بھر گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ رعایا بادشاہ سے دلی محبت کرتی ہے اور اکثریت بادشاہ کے ساتھ ہے اور اگر تالاب آدھا رہا تو نصف رعایا بادشاھ کی مخالف ہو گی اسی طرح تالاب کا باقی ماپ لیکر جتنا دودھ اتنی محبت اور مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ درباری رات بھر خوشامد کا سلسلہ جاری رکھے رہے۔

آخر صبح ہو ہی گئی با دشاہ چمچوں اور درباریوں کی معیت میں قدیمی تا لاب پر پہنچا تو تالاب کناروں تک بھرا ہونے کے باوجود نظر پڑ تے ہی حواس باختہ ہو گیا کیونکہ تالاب دودھ نہیں بلکہ پانی سے بھر ا تھا۔بادشاہ نے جب گردن گھما کر چمچوں کی طرف دیکھا تو سب غائب تھے۔بادشاہ کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہو چکا تھا۔کیونکہ رات بھر ھر آدمی یہ ہی سوچ کر کہ اگر میں نے تالاب میں دودھ نا ڈالا تو کیا فرق پرے گا اور کون سا اسے باد شاہ سے محبت ہے اسی طرح رات بھر رعایا یہ ہی سوچ لیکر تالاب میں دودھ کی بجائے پانی ڈالتی رہی اور صبح باد شاہ کو دودھ کا دودھ پانی کا پانی نظر آ گیا۔

گزشتہ انتخابات میں جس طرح مسلم لیگ ن کو عبرت ناک شکست ہوئی تھی وہ ناقابل یقین و بیان ہے۔ جہلم کے عوام میاں برادران کی محبت کا دم بھرتے ہیں مگر یک طرفہ محبت نے ان کو ذلت کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ عوام کو ملتا بھی کیا ے یہاں تو ایم این ایز اور ایم پی ایز کے امیدواروں کے الگ الگ گروپوں نے نہ صرف قیادت بلکہ عوام کو بھی کئی ٹکروں میں تقسیم کر دیا ہے، عوام بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں۔

ن لیگی قیادت کی جھوٹی اناؤں کی بھینٹ چڑھنے والے لیگی اب ن لیگ سے راہ فرار اختیار کر نے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ ن لیگیوں کے باہمی اختلافات سے دیگر جماعتیں سیاسی فائدا اٹھا رہی ہیں ۔ن لیگ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے امیدواروں کے مابین اپنے چمچوں اور کڑچھوں کے سنگ مقبولیت اور قبولیت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔

جہلم میں ن لیگی ورکر کم اور لیڈر زیادہ نظر آ رہے ہیں اور ہر گروپ کے لیڈر کو اسکے چمچے اور حواری تالاب دودھ سے بھرا دکھانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں آپسی گروہ بندی سے تنگ عوام کی اکثریت نے بھی انکو سبق سکھانے کی ٹھان لی ہے ۔ن لیگی قیادت کی اقرباء اور سیاسی پروری سے نوازے گئے لوگ آنے والے انتخابات میں بادشاہ سلامت کے چمچوں کا کردار ادا کر کے رفو چکر ہو جائیں گے کیونکہ ان سیاسی درباریوں کی عوام میں مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

گزشتہ انتخابات میں بھی ن لیگی لیڈروں نے ن لیگ کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے شکست سے دوچار کیا تھا۔اب بھی جہلم کے سیاسی افق پر آئے روز تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔اور ن لیگی قیادت کو آنے والے دنوں میں بادشاہ سلامت کی طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نظر آ جائے گا ۔ ورکرز کش پالیسی کے ذمہ داران عوامی نفرت کا شکار ہونے سے نہیں بچ سکتے اگر شریف برادران نے جہلم کی حالات پہ چشم پوشی جاری رکھی تو آنے والے انتخابات میں ان کا نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button