
سیاسی جماعتوں کو بندوق کی دہشت سے توڑنے کی روایت ہمارے ملک میں نئی نہیں بلکے یہ سالوں سے چلتی آرہی ہے ۔ جب ضیاء الحق آئے تو پیپلز پارٹی کے خلاف ایسا ہی کریک ڈاون ہوا جیسا اب تحریک انصاف کے ساتھ ہورہا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے کچھ لیڈروں کو جیلوں میں بند کیا گیا تو کچھ خاموش ہوگئے اور کچھ پارٹی چھوڑ گئے۔
اسکے بعد جب جنرل مشرف آئے تو پھر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ توڑ پھوڑ کی گئی۔ لیکن نہ تو پیپلزپارٹی ٹوٹی اور نہ ہی ن لیگ کو مکمل ختم کیا جا سکا۔ پارٹیاں کارکردگی نہ دکھانے اور عوام کے معیار پر پورا نہ اترنے پر تو ختم ہوسکتی ہیں لیکن جبر اور ظلم کی طاقت سے کبھی بھی پارٹی ختم نہیں ہوتی ہاں البتہ اسے وقتی طور پر کچھ حد تک نقصان ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ لوگوں کو توڑنے سے پارٹیاں مکمل ختم ہوجاتی ہیں تو یہ نا ممکن سی بات ہے ۔
آج کل ہر طرف ایک ہی موضوع زیر گردش ہے کہ فلاں نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ۔ فلاں تحریک انصاف سے الگ ہوگیا۔ کیا آپ سمجتھے ہیں کہ ایسا کرنے سے پی ٹی آئی کا وجود ختم ہوجائے گا۔ میرے خیال میں سیاسی مسائل کو سیاسی طور پر ہی حل کرنا چاہیے۔ لیکن اس وقت جو صورت حال ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ الیکشن سے فرار کے لیے کیا جارہا ہے۔ پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگنے کے چکر میں عوام پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور تحریک انصاف اور عمران خان کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔
بطور صحافی میں خود 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کی مذمت کرتا ہوں۔ جو ہوا غلط ہوا ۔ اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پی ڈی ایم سارا ملبہ تحریک انصاف پر ڈال اسے بین کروانا چاہتی ہو۔ کیونکے ہوسکتا ہے کہ ہمارے دشمنوں نے موقع کا فایدہ اٹھاتے ہوئے پرتشدد کارروائیاں کی ہوں تاکہ سیاسی جماعتوں کو ایسا لگے کہ یہ سب تحریک انصاف نے کیا ہے۔
بظاہر پاکستانی ہونے کے ناطے دل نہیں مانتا کہ کوئی محب وطن ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ خیر حکومت نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تو تشکیل دے دی ہے ۔ لیکن جس طرح پی ٹی آئی کے کارکنان کو گرفتار کیا جارہا ہے ۔ خواتین کی بے حرمتی کی جارہی ہے اور کم عمر بچوں کو صرف تحریک انصاف سے تعلق پر اٹھا کر دھمکانا انصاف نہیں ہے۔ مہذب معاشرے میں ایسا کرنا نا قابل برداشت ہے۔
اس کے علاوہ پارٹی کے کئی لوگوں پر پریشر ڈال کر پارٹی چھوڑنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے جو انتہائی غلط ہے۔ اسطرح تحریکیں نہیں توڑی جا سکتیں۔ عوام کاغصہ مزید بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اب عوام کو شعور ہے اور وہ الیکشن چاہتے ہیں۔ لیکن پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگ رہی ہے اور ایسی گھٹیا حرکتیں کرکے اپنا ووٹ بنک مزید کم کر رہی ہے۔
تاریخ میں ایسی ایک بھی سیاسی جماعت نہیں ہے جسے سیاسی میدان سے ہٹانے کے لیے ظلم ، تشدد اور طاقت کے بل بوتے پر سائیڈ لائن لگا کر ختم کر دیا گیا ہو ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی بھی ختم نہیں کر سکتا اگر اس کا نظریہ لاکھوں لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں بستا ہو ۔ یار رکھیے گا تشدد اور اغوا سے پی ٹی آئی ختم نہیں ہو سکتی بلکے آنے والے وقت میں یہ مزید مضبوط ہوجائے گی ۔
پی ڈی ایم الیکشن سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں پر بھی پابندیاں لگا کر انہیں گرفتار کرلیا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے یوٹیوبر اور سینئر صحافی عمران ریاض خان کتنے دنوں سے لاپتہ ہیں ۔ عدالت کے احکامات کے باوجود پولیس یہ پتہ لگانے میں ناکام ہے کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان ۔ کسی ادارے کو نہیں پتہ یہ کہاں ہیں ۔یہاں پر مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم سے زیادہ تو غیر مسلم ریاستوں کا نظام بہتر ہے جہاں جانوروں تک کے حقوق کی پامالی نہیں ہوتی۔ شاہد یہ ہی وہ وجہ ہے کہ وہ لوگ ترقی کی معراج پر ہیں ۔
پاکستان میں آئین اور قانون کی بحالی تک نہ تو خوشحالی آسکتی ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام آسکتا ہے۔ اس وقت سیاسی خانہ جنگی اس قدر شدت اختیار کرچکی ہے کہ یہ خدا نحواستہ ریاستی خانہ جنگی کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ ہر سچے اور محب وطن پاکستانی کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاک پاکستان کو تنزلی والے راستے سے ہٹا کر ترقی وخوشحالی والے راستے پر دوبارہ گامزن کردے ۔ آمین