کالم و مضامین

منگلا روڈ بمقابلہ فوکل پرسن

تحریر: سید توقیر آصف شاہ

دینہ کی مشہور اور معروف ترین روڈ منگلا روڈ پر تجارتی مراکز، ہسپتال اور سرکاری و پرائیویٹ سکول کالج واقع ہیں۔

منگلا روڈ کی گزشتہ چند برسوں سے ابتر حالت کا شکار تھی جس پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے دوستوں نے بھرپور انداز سے اس روڈ کے مسائل سے آگاہی دی اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے معصوم حکمرانوں کو جگانے کی کوشش کرتے رہے۔

سیاسی سطح پر مقامی سماجی و سیاسی راہنما چوہدری محمد انور ہڈالی اور چوہدری محمد ضمیر کی ذاتی کوششوں سے تحریک انصاف کی حکومت میں چوہدری فرخ الطاف حسین ایم این اے کی خصوصی گرانٹ ساڑھے چار کروڑ کی لاگت سے ڈیڑھ کلومیٹر روڈ کی منظوری ہوئی جسے پانچ ماہ مکمل ہونا تھا ۔

اس روڈ کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہ روڈ واپڈا، بلدیہ دینہ، پنجاب ہائی وے کی ملکیت ہے لیکن آخر کار یہ پنجاب ہائی وے کے ٹھیکیدار کے نام قرعہ نکلا ۔ بدقسمتی سے روڈ کا کام شروع ہوتے ہی وفاق اور پنجاب میں حکومتیں تبدیل ہو گئیں، ساتھ ہی ساتھ مقامی فوکل پرسن بھی تبدیل ہو گئے ۔

اب نئے فوکل پرسن اور پنجاب ہائی وے کے افسران کے روڈ پر فوٹو شوٹس تو بہت ہوئے اور سوشل میڈیا پر فوٹو شیئرنگ ہوئی اور گروپوں میں داد وصول کی گئی لیکن روڈ کا کام دوسرے دن ہی رک گیا ۔ ساون کی پہلی بارش نے ہی روڈ کی ساری حقیقت کھول کر رکھ دی۔

مقامی آبادی کے زیر استعمال اور بارش کے پانی کا مناسب نکاسی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھروں دکانوں اور بچیوں کے کالج میں پیرز والے دن پانی گھس گیا جس سے لوگوں کا مالی نقصان بہت ہوا اور سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس صورتحال میں صرف اور صرف میڈیا اور تحصیل انتظامیہ کے ساتھ اے سی دینہ شاہد بشیر نے ہنگامی بنیادوں پر کام کر کے نکاسی آب کا بندوست کیا، اس موقع پر کوئی فوکل پرسن نظر نہ آیا ۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب ہائی وے کے ٹھیکیدار کو داد دینی پڑے گی کہ اس نے روڈ کے ہاٹ شولڈر کے لیے مٹی انہی دوکانوں، مکانوں اور سکول کالجز کے سامنے سے تین تین فٹ گڑھے ڈال کر اٹھائی، مقامی لوگوں کی چیخ وپکار کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے مٹی اٹھاتا رہا۔ تحصیل انتظامیہ، ضلعی انتظامیہ اور فوکل پرسن کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اس کو روک سکے ۔ اب بیچارے کچھ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گڑھے بھروانے جبکہ باقی جوں کے توں موجود ہیں۔

موجودہ سیاسی کشیدگی کی وجہ اور فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے روڈ کا کام رک گیا ہے، اب اس بارے میں فوکل پرسن ہی بتا سکتے ہیں کہ اس روڈ سے منسلک لوگوں کو کب چین میسر ہوگا ۔ آخر میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور بلخصوص فوکل پرسن سے گزارش ہے کہ منگلا روڈ بچیوں کے کالج ہڈالہ ٹریفک جام اور جامع مسجد نکودر کے سامنے کندے پانی کا تالاب توجہ کے منتظر ہیں۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

2 تبصرے

  1. درحقیقت خرابی اس نظام کی ھے. روڈ بنانے والا ادارہ پورے ملک میں ایک ھی ھونا چاہیئے. اس طرح کی تقسیم سے عوام کو ھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ھے. اسی طرح کی مثال ریلوے اسٹیشن دینہ سے ملحقہ مجاہد سٹریٹ کی ھے. جو کئی سالوں سے مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ چکی ھے. ضلعی سطح پر اس کو بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن ریلوے حکام کی مداخلت پر تاحال نہیں بنائی جا سکی.

  2. درحقیقت خرابی اس نظام کی ھے. روڈ بنانے والا ادارہ پورے ملک میں ایک ھی ھونا چاہیئے. اس طرح کی تقسیم سے عوام کو ھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ھے. اسی طرح کی مثال ریلوے اسٹیشن دینہ سے ملحقہ مجاہد سٹریٹ کی ھے. جو کئی سالوں سے مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ چکی ھے. ضلعی سطح پر اس کو بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن ریلوے حکام کی مداخلت پر تاحال نہیں بنائی جا سکی.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button