کالم و مضامین

شعور یا سیاسی شعور

تحریر: پروفیسر افتخار محمود

آج کل شب و روز دائیں بائیں اطراف میں ایک بحث چلی رہی ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے قیام کو 75سال کے عرصہ میں پہلی مرتبہ شاید کوئی موقع میسرآیا ہے جس نے عوام کو شعور دیا ہے کہ لوگ اندھے ہو رہے ہیں بغیر کسی سوچ سمجھ کے گلیوں بازاروں اور دیہات کی چوپالوں میں ایک ہی گفتگو سننے کو ملتی ہے کہ پاکستانی عوام کو ایک شعور سے نواز دیا گیا ہے ، اس تصور میں سچائی کس حد تک ہے؟ ۔

لفظ شعور کی بحث سے جب اپنا ذہن سیر ہو ا تو مدرسہ صحافت کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے فیصلہ لیا کہ کیوں نہ اس بحث پر ایک معنی خیز تحریر قلم بند کی جائے شاید کہ ہزاروں لاکھوں لاابال اذہان میں سے چند ایک کو سمجھ آسکے کہ شعور اصل میںہوتا کیا ہے ؟ اب نوٹ کر لیں کہ لغت کے مطابق لفظ شعور کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے ۔

’’طب و نفسیات میں شعور کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ شعور اصل میں عقل (Mind)کی ایسی کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں ذاتیت (Subjectivity)،فہم الذاتی(Self-awareness)،ملموسیہ (Sentience)،دانائی اور آگاہی (Perception)کی خصوصیات پائی جاتی ہوں اور ذاتی (Onself)و ماحولی حالتوں میں ربط پایا جاتا ہے ‘‘۔

اب اصل عنوان کی طرف آتے ہیں کہ جو سطور بالا میں شعور کی لغوی تعریف بیان کی گئی ہے اور جس جذباتی یا لا اُبالی شعور کو پاکستان میں فروغ دیا جا رہا ہے وہ شعور کی بیان کردہ تعریف کے مطابق کس قدر درست ہے اگر کوئی ذی شعور قاری اس تعریف پر غور کرے گا تو واقعی نفی میں جواب دے گا کیوں کہ ہر سر گرمی کا ایک فکری معیار ہوتا ہے۔

اس حوالہ سے دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اولذکر میں شعور کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس سے پاکستان میں فروغ پانے والا موجودہ عوامی شعور کسی طور بھی اس بنیادی تعریف کے زمرے میں نہیں آسکتا ، اگر کوئی فرد حالیہ سیاسی سر گرمیوں کو شعور کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو یہ اس کی اپنی سوچ تو ہو سکتی ہے لیکن اگر سیاسی شعور کے معیار پر پرکھاجائے تو پہلے تو ہمیں لفظ سیاست سے واقف ہونا لازمی ہے کہ سیاست بنیادی طور پر ہوتی کیا ہے ؟تو سیاست کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ زندگی کے سماجی معاشرتی اجتماعی /بنیادی مسائل اور ان کے حل کے طریقوں کا عمیق(گہرے ) انداز میں مطالعہ کرنا سیاست کہلاتا ہے ۔

اگر وطن عزیز پاکستان کے اندر موجودہ صورت حال کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے قیام سے اب تک پہلے سے ہی نافذ شدہ سرمایہ دارانہ ، جاگیردارانہ نظام معیشت کے سائے تلے روایتی خاندانی جمہوریت کا نظام قائم ہے اگر اس کو شہنشاہی جمہوریت کا نام دیا جائے تو بھی غلط نہ ہو گا ،مروجہ نظام کو موروثی جمہوریت کا نام بھی دیاجاسکتاہے جیسی کیفیت میں سیاسی شعور کیسے پنپ سکتا ہے۔

پاکستان کی تاریخی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں سیاست نظریات کی بجائے شخصیات اور خاندانوں کے گرد گھومتی رہی ۔ بیان مزکورہ کیفیات نے لفظ شعور اور اصل سیاسی شعور کو گڈ مڈ کر کے پیش کیا، شعور کا غلط ترجمہ کیا گیا جس میں مخالفین کی چند کمزوریوں کو اجاگر کرنے کے عمل کو شعور کا نام دیا گیا حالآ نکہ لفظ شعور کی اولذکر میں بیان کردہ تعریف کے بعد واضح ہو جانا چاہیے کہ شعور کی اصل کیفیت کون سی ہوتی ہے؟ یہ علم اور فکری اہلیت کی بات ہوتی ہے کہ کسی کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے سے کیا وہ کمزوریاں ختم ہو جاتی ہے نہیں ہر گز نہیں ۔

قارئین محترمین کو علم ہونا چاہیے کہ گزشتہ پون صدی کے دوران جو کوئی پاکستانی مسند اقتدار پر براجمان رہے یا انہیں تحفظ فراہم کرنے کی کاوش میں مصروف رہے وہ سب صرف اور صرف مروجہ استحصالی اور لوٹ کھسوٹ کے نظام کے تحفظ کی فکر تک محدود رہے ، آج بھی پاکستان کے سیاست کے قرطاس ابیض پر وہی کچھ دکھائی دیتا ہے سوائے شخصیات کی ذاتی رائے یا جذبات کو لے کر بے چارے عقلی شعور سے عاری عوام اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کرنے تک مجبور ہیں یعنی قیام پاکستان سے قبل سے رائج شدہ نظام معیشت جاگیرداری ، سرمایہ داری اور پھر آزاد منڈی کی معیشت کا نظام جاری رکھنے کے در پے ہیں ۔سیاسی فورموں پر جو قوتیں آمرانہ یا جمہوری طور پر متمکن رہیں ان کے اہداف بھی صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو ہر طرح سے قائم رکھنا رہاہے اور اسی نظام کا تحفظ ان سب کا ہدف رہا اور ہے ۔

یہاں اپنے قارئین کے علم میں اضافہ کے لئے موجودہ سرمایہ دارانہ اور آزاد منڈی کی معیشت کے حوالے سے چند تعارفی جملے شامل ہیں وہ اس طرح کہ بیان مذکورہ نظام معیشت تمام ذرائع پیداوار ،زمیں ،محنت ،سرمایہ اور تنظیم نجی (پرائیویٹ ) ملکیت میں ہوتے ہیں اور نفع ،دولت ، ملکیت اور سرمائے کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی ارتکاز دولت کو دور دورہ ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں منقسم ، معاشی طور پر ناہموار معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔مساوات ، برابری صرف تقاریر، تصورات یا نعروں تک محدود رہتے ہیں ۔

سیاسی پارٹیوں کے قائدین جب حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو ’’معائدہ معیشت ‘‘کی خواہشات ظاہر کرتے ہیں لیکن جب وہی قائدین عنان اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں تو ان خواہشات پر عمل کے لئے ہمت سے یہ حکمران قوتیں عاری دکھائی دیتی ہیں۔سب سے اہم بات یہ کہ عوام کو سیاسی، عقلی ، نظریاتی تعلیم سے ہر گز دور رکھا جاتا ہے اور نظام کو جاری رکھنے کے لئے آفاقی دلائل فراہم کیے جاتے ہیں ۔ انسانی اذہان کو عقدی قیود میں بند رکھا جاتا ہے۔

بات ساتھ ساتھ سیاست اور سیاسی شعور کی جاری رہے گی کہ جب سیاست کا معنی ہی زندگی کے اجتماعی مسائل اور انسان کے بنیادی مسائل کو گہرائی سے دیکھنا اور پھر ان کے حل کے لئے عمیق طریقے سے حل نکالنا ہوتا ہے تو اس وقت پاکستان کے پردہ سیاست پر جو حکمران خاندانوں کی پرودہ سیاسی پارٹیاں موجود ہیں ان میں سے ایک بھی پاکستان کے 23کروڑ عوام کے لئے اس قسم کا کوئی پروگرام اپنے منشور میں محفوظ نہیں رکھتی جو ہر پاکستانی شہری کو بلا تمیز جنس ، نسل ، ذات ، طبقہ ، مذہب ، عقیدہ ، چار بینادی انسانی حقوق کی ضمانت واقعی دے سکے ۔

ان چار بنیادی حقوق میں مفت یکساں تعلیم ، صحت ، رہائش اور روزگار کی ریاستی ضمانت ہوتی ہے ۔ جیسا کہ 1973ء کے پہلے متفقہ جمہوری دستور کی شکیں موجود ہیں ۔جہاں تک عقلی یاسیاسی شعور کا تعلق ہے تو پاکستان کے عوام کو اگر شعور سے اجاگر کرنا ہے تو پھر بنیادی انسانی حقوق کا شعور دینا ہو گا جذبات کے ابھارنے سے کبھی نظام تبدیل نہیں ہوتے ۔ اس وقت اگر عوام کے معاشی مسائل کے حوالے سے بات کی جائے تو گزری پون صدی میں تو فیصلہ ہی نہیـں ہو پایا کہ یہ مملکت فلاحی ہے یا ترقی یافتہ ہو نے جا رہی ہے ۔

لہٰذا پہلے قارئیں کرام کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ فلاحی یا ترقی یافتہ ریاست کون سی ہوتی ہے۔ تو سنیں کہ فلاحی نظام معیشت میں ذرائع پیداوار محدود انداز میں نجی ملکیت میں رہتے ہیں لیکن ہر شہری کے چار بنیادی انسانی حقوق روزگار ، رہائش ، تعلیم اور صحت کی یکساں ضمانت دیتی ہے نیز ایک معائدہ معیشت کے تحت اشیائے خوردونوش کی معین قیمتوں کا نظام رائج کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں دنیا مغرب کے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔

پاکستان کی طرح آزاد منڈی کی معیشت نہیں ہوتی ، پاکستانی عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں معیشت یا نظام معیشت کسی بھی موجودہ بڑی سیاسی جماعت کے منشور میں شامل ہی نہیں ہے اگر ہوبھی تو جب کوئی پارٹی کامیاب ہو کر اقتدار پر براجمان ہوتی ہے تو ایک سرکاری فریم ورک اسے پابند کر تا ہے کہ وہ عوام میں پیش کردہ منشور پر کس قدر عمل کے قابل ہے۔ جبکہ ریاستی اور سرکاری رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔

جہاں تک شعور یا سیاسی /معاشی شعور کا تعلق ہے توجس طرح محنت کش کے ہاتھ کو دست دولت آفرین کا نام دیا گیا ہے تو سیاسی یا معاشی شعور اصل میں عقل ثریا کی منزل ہوتی ہے جو ایسی فکر سے سرشار ہو تی ہے کہ جس ہاتھ کی وجہ سے دنیا کا موجودہ نقشہ دن بدن ارتقاء پذیر ہے اصل میں حکومت و اقتدار کا وہی ہاتھ ہی بنیادی طور حق دار ہے جو نظریہ کا رل مارکس اور فریڈک اینگلز نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو دیا وہی اصل میں آج پاکستان کے عوام کے بنیادی مسائل کا اصل حل بھی اسی نظریہ کے اندر مضمر ہے ۔ ورنہ صرف ایک جذباتی فکر کو فروغ دینا کوئی شعور کے زمرے میں نہیں آسکتا ہے ۔

سیاسی شعور ہو یا معاشی شعور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ عوام جو کسی بھی وطن کی ترقی یا تنزل کا باعث بن سکتے ہیں یعنی عوام کی برابر ترقی و خوشحالی سے ترقی یا تنزل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ورنہ الفاظی مبالغہ آرائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتاہے ۔عوام اور خصوصاً پاکستانی عوام جو مدرسہ سیاست یا نظام معیشت سے واقف تک نہیں ہیں نہ ہی کسی فورم نے عوامی شعور کی بالیدگی کے لئے کوئی خاطر خواہ ضرورت محسوس کی ہے یہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جا سکے۔

یہ درست ہے کہ اکیسویں صدی کے ابتداء پر پاکستان میں آئی ٹی کا انقلاب آیا لیکن اس شعور کی بات نہ کی گئی جو کہ ہر دور میں لازم ہے عوامی حقوق کا شعور اور برابر روزگار ، رہائش ، تعلیم اور صحت کی سہولیات کا شعور حتیٰ کے سب کا پاکستان جیسا شعور نہ دیا گیا نہ دیے جانے کی کوئی توقع ہے کیونکہ موجودہ سیاسی پردہ سکرین پر برسوں سے نافذالعمل مالی ، معاشی استحصالی اور اب فکری یا جذبات کے استحصال کے نظام کے تحفظ کو ہدف بنایا جا رہا ہے جو کہ شعور کی کسی قسم میں شامل نہیں کیا جا سکتا بس یاد رکھیں کہ سیاست اور سیاسی شعور کا مرکز نظریہ اور پروگرام ،نہ کہ جذبات اور شخصیات پر جانیں نچھاور کرنے کو شعور کا نام دیا جائے بلکہ بعض حضرات یہاں تک اندازہ کر رہے ہیں کہ آج جس طرح عوام جو ایک سیاسی پارٹی کے کارکن کہلاتے ہیں نڈر ہوکر انتظامی اداروں کے مقابلہ میں کھڑے نظر آتے ہیں یہ بے خوف ہونے کا شعور ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

سیاست کی کرنیں پاکستان کے نقشہ سیاست پر 1972ء تا 1976 ء کے دور حکومت میں دکھائی دی تھیں لیکن دو آمرانہ ادوار میں سیاست کو نظریات سے ہٹا کر شخصیات کے رومانس تک محدود کر دیا گیا جبکہ پاکستان کی سیاسی افق پر نئی سیاسی جماعت کو متعارف تو کروا دیا گیا لیکن بغیر کسی نئے ویژن یا نظریہ کے ۔شعور کا تقاضا تو یہ کہ انقلاب عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤزے تنگ کے قول ’’ ایک چیز سب کے لئے اور سب چیزیں ہر اک کے لئے ‘‘ پر عمل کیا جائے تا کہ تما م سابق استحصالی قوتیں خود بخود ختم ہو سکیں ۔اور وہ سیاسی جماعت واقعی عوام کی نمائندہ ثابت ہو سکے۔

ای میل [email protected]
فون نمبر:0301-03065430285

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button