کالم و مضامین

سیاسی کھچڑی ۔۔۔۔ فواد آیا صواد آیا

لکھنے والوں کے لیے بھی بڑے مسائل ہوتے ہیں۔بات جن کے دل کو لگی وہ خوش ہوئے اورجن کے دل کو چیرا وہ ناراض ہو گئے۔ مجھ ایسے شخص سے زیادہ ترلوگ ناراض ہی رہتے ہیں خواہ وہ سیاسی ہوں یا صوحافی ہمہ وقت منہ پھیرے رکھتے ہیں۔

صحافت کی دو سے زائد عشروں کی عمر میں سب کو خوش کرنے کے لیے از سر نو اپنی تعمیر بہت مشکل ہے۔ جو لکھتا ہوں اسکے لفظ لفظ کا ذمہ دار ہوں کسی کے اُگے ہوئے لقمے نہیں چپاتا۔ ہم ہیں کہ باز آنے والے نہیں اپنی کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے۔

جہلم والو سنو !
جہلمی سیاست کے تیور بدل رہے ہیں۔ چپ کی بکل مارے سیاست دانوں کی میدان سیاست میں اچانک واپسی ہو رہی ہے۔ انتخابی حلقوں میں جگہ بنانے کے لیے سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں دھڑے بندیاں قائم کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔

واہ رے سیاست تیرے کیا کہنے غلطی کر ،سازش کر،سازش کا حصہ بن ، حریف کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے کسی کو بھی گلے لگا،کسی کی بھی پیٹھ پر تھپکی دے سب معاف ہے ان دنوں سیاسی باورچی خانوں میں مختلف اقسام کی ہانڈیاں چڑھ رہی ہیں اور طرح طرح کے پکوان سامنے آ رہے ہیں جو اشتہا انگیز بھی ہیں اور لذت سے بھر پور بھی مگر ان پکوانوں سے خواص ہی مستفید ہو سکتے ہیں عوام نہیں اور اسکے خاص وجہ یہ ہے کہ عوام تو خود ان سیاسی پکوانوں کے اجزا میں سے ہیں اگر کہا جائے کہ عوام کی شمولیت کے بغیر ان کا بننا ممکن نہیں تو ٖغلط نہ ہو گا۔

بات سیاسی پکوانوں کی ہو رہی ہے تو سب سے پہلے ہم حلقہ این اے 61 جو67 اور 63 کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے کی رسوئی (باورچی خانہ ) میں پکنے والے پکوان جسے عام زبان میں کھچڑی کہا جاتا ہے کو تیار ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ ’’فواد آیا صواد آیا ‘‘کا چٹ پٹا نعرہ بھی اسی رسوئی (باورچی خانہ ) کا تیار کردہ ہے ۔

فواد کے دور حکومت میں ا س رسوئی (باورچی خانہ ) سے جس کو جو ملتا تھا اسکو چکھنے یا کھانے والے کبھی بد ذوائقہ قرار نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں ہر پکوان ذائقے سے بھرپور لگتا تھا مجال ہے کسی زبان پر کوئی شکوہ یا شکایت تک آئی ہو ۔جو ہے جیسا ہے کھا کے بھی’’فواد آیا صواد آیا‘‘ کا ورد ہر زبان زد عام تھا ۔

اب اچانک اقتدار کی آگ مٹھی ہوتے ہی کچھ لوگوں کو اس رسوئی (باورچی خانہ ) کے رسوئیا (باورچی) سے شکایتیں ہونے لگی ہیں۔صواد نام کی کوئی چیز انہیں نظر نہیں آ رہی اس لیے ان لوگوں نے اپنے صواد کے لیے نئے رسوئیا (باورچی) کے انتخاب کے لیے سر توڑ کوششیں شروع کر دی ہیں۔ جب بات پکوانوں کی ہو رہی ہو تو اس میں مغلیہ پکوانوں ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ اس سیاسی رسوئی (باورچی خانہ ) میں مغلیہ پکوان اپنی الگ شناخت کے حامل ہیں ۔ مغلیہ پکوان کو ذائقے دار بنانے کے لیے رسوئییا رسوئیے کا تجربہ ہو نہ ہو صحافت کا کئی سالہ تجربہ موجود ہے ۔

محمود مرزا جہلمی نے مغلیہ رسوئی میں تیار ہونے والی ’’ کچھڑی‘‘ کو ذائقے دار بنانے کے لیے جس انداز میں فواد کا صواد ختم کرنے کے لیے انتھک محنت کی ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ محمود مرزا عرصہ دراز سے اس رسوئی اور اس میں تیار ہونے والے پکوانوں کے ذائقوں کو بد بودار قرار دیتے رہے ہیں اب پتہ نہیں کہ انکی تیار کردہ کچھڑی کا ذائقہ انکو خود بھی اچھا لگے گا یا نہیں کیونکہ انکی قائم کردہ رسوئی (باورچی خانہ) میں پکوانوں کی تیاری کے لیے جو مصالحے اکٹھے کیے گئے ہیں وہ ہی پکوان کی تیاری کے عین وقت پر زائد المیعاد ثابت نہ ہو جائیں۔اور مرزا جی کی تیار کردہ کھچڑی دہری کی دہری رہ جائے۔

فواد کے صواد کے خلاف اکٹھے ہو کر پکوان کی تیاری میں مشغول رسوئیے اگر اپنے اپنے مصالحہ جات کے استعمال کی سوچیں گے تو ’’کھچڑی‘‘ کیسی بنے گی اور اسکا ذائقی کیسا ہو گا یہ آنے والے وقت بتائے گا۔ایک بات اظہر المن شمس ہے کہ محمود مرزا جہلمی نے اپنی سیاسی کھچڑی کو تڑکا لگانے کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا ہے وہ شاید اس کھچڑی کو ذائقہ دار نہ بنا سکے ۔

پی ٹی آئی کے فواد مخالفین کی دھواں دار پریس کانفرنس سننے کے بعد مجھ ایسا طالب علم بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کی کھچڑی تیار ہو نہ ہو مگر محمود مرزا جہلمی نے اس رسوئی تک رسائی ضرور حاصل کر لی ہے جس کا وہ کئی سالوں سے بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت یا کپتان پر اس پریس کانفرنس کا کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں اگر کپتان نے اثر لے لیا جو ناممکن ہے تو پھر مرزا جی کے وارے نیارے ورنہ مرزا جی اپنی کمان میں رکھے تیر وں کاس رخ کسی اور طرف کر سکتے ہیں ۔

تو باقیوں کا کیا بنے گا وہ واپس اسی رسوئی میں جائیں گے جہاں ’’فواد آیا سواد آیا‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے یا پھر محمود مرزا جہلمی کے لشکر میں شامل ہو کر تیز انداز بنیں گے۔پی ٹی آئی کی قیادت کے فیصلے کے بعد اس کچھڑی کے صواد کا اندازہ لگایا جائے گا کہ وہ ایک فواد کو رکھنا چاہتی یا امیدواروں کی فوج ظفر موج کی موجیں لگانا چاہتی ۔ دیکھئے اور انتظار کیجئیے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button