کالم و مضامین

کامیابی دروازہ توڑ کر اندر نہیں آتی

تحریر: طارق محمود طالب

کالم کا عنوان ایک مشہور انگریزی محاورے Success knocks at the door but it doesn’t break it down کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ محاورہ اپنی جگہ پر ایک لازوال سچ ہے اور اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ کامیابی کسی کے دروازے پر بار بار دستک بھی نہیں دیتی۔عہد حاضرکاایک تلخ سچ یہ بھی ہے کہ کامیابی نے جتنی بار عمران کے دروازے پر دستک دی ہے اتنی خوش نصیبی شاید ہی قدرت نے کسی کے صفحہ تقدیر پرلکھی ہوگی۔ دروازہ کھولنا تو بہرحال ان کی اپنی مرضی پر منحصر تھا۔ انہوں نے سیاسی جدو جہد کا ایک طویل عرصہ سڑکوں پر گزارا اور آخر کار18 اگست2018ء کواقتدار کا ہماان کے سرپر جا بیٹھا۔

اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ طاقت کے ایوانوں تک پہنچنے میں کس نے ، کب اورکیسے ان کی مدد کی؟ وزارت عظمی ان کے دروازے پرکامیابی کی پہلی دستک بھی تھی ، ان کی محنت کا ثمر بھی اور ان کی سیاسی بصیرت ، تدبر ، تحمل اور بردباری کا کڑا امتحان بھی۔ پاکستان کے عوام پوری شدت سے تبدیلی کے منتظر تھے اور ان کا تبدیلی کا نعرہ پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔یہ نوجوان نسل کو مکمل طور پر اپنی شخصیت کے سحر میں جکڑنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ حتیٰ کہ ان کی پہلی تقریر میں ـ’’ریاست مدینہ‘‘کے خواب نے ان لوگوں کو بھی اپنا اسیر بنا لیا جو ان کے ووٹر نہیں تھے۔ـ

یہ ان کی زندگی کا وہ موڑ تھاجہاں نعروں کی بجائے عمل کی ضرورت تھی۔جن ٹوٹے بکھرے خوابوں کی کرچیوں نے پاکستان کے بے بس عوام کو 75سال سے خون کے آنسو رلا رکھا تھا ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے ضرورت تھی ۔ مہنگائی، استحصال،ناانصافی اور روایتی سیاست سے بے زار عوام کی امیدیں اپنے بام عروج پر تھیں۔ اس موڑ پر اگر وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ، ان کے ٹوٹے بکھرے خوابوں کو جوڑ کر تعبیریں تراشتے، ان کی اشک شوئی کرتے اور اس مردہ اور بدبو دارروایتی سیاسی نظام سے انہیں ’’حقیقی آزادی ‘‘دلا دیتے تو پھر انہیں کسی سے ووٹ مانگنے کی ضرورت باقی نہ رہتی لیکن ہوا کیا؟

’’ درباری مالشیوں ‘‘نے دیگر حکمرانوں کی طرح انہیں بھی اپنے حصار میں لے لیا اور کھوکھلے جذباتی نعروں کی گونج میں انہیں ایسے موڑ پر لے آئے جہاں اب زمان پارک کے سویپر بھی ان کی ضمانت دینے سے انکاری ہیں۔فصلی بٹیرے اڑ چکے ہیں اور اب زمان پارک پر سناٹوں کا راج ہے۔عمران خان کے ساتھ سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ ان کو ’’گھر سے بھی مار ‘‘پڑ گئی۔

یہ درباری مالشی کون ہوتے ہیں اور ان کی نسلیں کئی صدیوں سے کس طرح اقتدار کے ایوانوں سے چپکی ہوئی ہیں؟ اس تاریخی حقیقت کی وضاحت کے لیے میں اپنے ایک پرانے کالم کے چند اقتباسات آپ کی دلچسپی کے لیے پیش کروں گا۔

1759ء میںدین محمد نامی ایک ہندوستانی شخص نے برطانیہ کے شہر برائٹون میں ’’انڈین سٹیم باتھ‘‘ کے نام سے ایک حمام بنایا۔ اس حمام کی خاص بات یہ تھی کہ غسل سے پہلے دین محمد اپنے گاہکوں کی مالش کیا کرتا تھا۔تھکے ماندے گورے اس کے حمام پر آتے وہ ان کی مالش کرتا اور مالش کے بعد جب وہ’’ بھاپ غسل‘‘ کرتے تو ان کی تھکن دور ہوجاتی اور وہ ہلکے پھلکے ہو کر گھروں کو لوٹتے۔ رفتہ رفتہ اس کی یہ مالش مشہور ہوتی چلی گئی۔مالش کی یہ روایت کسی نہ کسی حوالے سے اب بھی مختلف حماموں پر مل جاتی ہے۔

برطانیہ کے گوروں نے دین محمد کی مالش کو بہت سراہا اور وہ ’’ڈاکٹر برائٹون‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا ۔ پھراس کے نصیب جاگے اور اس کی مالش شہرت دوام پا گئی۔1762ء میں دین محمد کو برطانیہ اور آئر لینڈ کے کنگ جارج آگسٹس فریڈرک کا ’’شمپو سرجن‘‘ یعنی درباری مالشی مقرر کر دیا گیا۔بعد ازاں اسے کنگ ولیم چہارم کے شمپو سرجن کے فرائض بھی سرانجام دیے۔

کنگ جارج اور کنگ ولیم تو دنیا سے چلے گئے لیکن دینے مالشی کی اولادوں کو شاہی محلات میں رہنے کا چسکہ پڑگیا۔ آہستہ آہستہ یہ لوگ دنیا کے سارے جارجوں اور ولیموں کے درباروں تک جا پہنچے۔ بادشاہ بدلتے رہے لیکن دینے مالشی کی اولاد محلات کے درودیوار سے چپکی رہی۔اقتدار ایک نشہ ہے اور یہ درباری مالشی اس نشے میں چاپلوسی اور خوشامد کا امرت گھول کر اس انداز سے پیش کرتے ہیںکہ حکمران اپنے آپ کو جہاں پناہ، ظل سبحانی ،امیر المومنین اور امت مسلمہ کا عظیم لیڈر محسوس کرنے لگتے ہیں۔

یہ کسی حکمران کانشہ ٹوٹنے نہیں دیتے اس وقت تک جب تک وہ اپنا سر کسی دیوار سے ٹکرا کر پھوڑ نہیں لیتا۔آپ وطن عزیز کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیںایسے حکمرانوں کی جب آنکھ کھلتی ہے تو یہ مالشی نئے ظل سبحانی کی تلاش میں جا چکے ہوتے ہیں ۔ آپ وطن عزیز کے کسی حکمران کا اپنی کابینہ کے ساتھ گروپ فوٹو دیکھیں یہ آپ کو ہر حکمران کی بغل میں نظر آئیں گے ۔عمران خان ان کا تازہ ترین شکار ہے۔

اقتدار کھو دینے کے بعد بہت کم حکمرانوں کو عوامی حمایت نصیب ہوتی ہے۔ عمران خان ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں اقتدار سے محروم ہو کر بھی بھرپور عوامی حمایت میسر رہی۔یہ ان کے دروازے پر کامیابی کی دوسری دستک تھی۔انہیں چاہیے تھا کہ سانس لیتے ، خاموشی اختیار کرتے، ناکامی کی وجوہات پر غور کرتے ، اپنی صفوں میں سے مالشیوں، چرب زبانوں اور گمراہ کرنے والوں کو پہچانتے، ان سے چھٹکارہ حاصل کرتے،صفیںازسر نو ترتیب دیتے اور وقت کے تقاضوںکے مطابق آگے بڑھتے تو عوامی حمایت انہیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتی تھی لیکن درباری مالشیوں نے انہیں ایسی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا جسے لڑنے کی ضرورت ہی نہیںتھی اور انہیں ایسی دیوار سے ٹکرادیاجہاں نہ صرف وہ خود ڈھیر ہو گئے بلکہ ان کا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا۔ اب اگر سوال یہ ہو کہ کیا سب دروازے بند ہو چکے ہیں ؟تواس کا جواب ہے کہ قطعاً نہیں۔

کامیابی کی تیسری دستک سنائی دے رہی ہے۔اس کے لیے اپنی غلطیوں کا از سر نو جائزہ لینا پڑے گااور تجدید عہد کے ساتھ صبر، حوصلے، تدبر اور دوراندیشی سے اپناسفر شروع کرنا پڑے گا۔ المیہ یہ ہے کہ اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے کے لیے سر جھکاکر سوچنا پڑتا ہے اور سر جھکانے کے لیے گردن سے سریا نکالنا پڑتاہے۔ وہ اگر ایسا نہیں کرتے توتاریخ اور وقت پیچھے مڑ کرنہیں دیکھتے اور ان کے فیصلے بڑے بے رحم ہوتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button