آج کل جہلم میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا بازارلگنے والاہے۔ بولیاں لگیں گی اور قیمتیں بڑھائی گھٹائی جائیں گی۔ پارٹی قائدین دربار لگا کر بیٹھ بیٹھیں گے۔ پیسے کے علاوہ ہردرخواست گزار اپنے اپنے حلقے میں اثر و رسوخ کا نقشہ پیش کر کے اپنے یقینی قابلِ انتخاب (Electable) ہونے کا ثبوت پیش کرے گا۔
اسکے علاوہ وفاداریاں بھی ثابت کی جائیں گی۔ لوٹا کریسی بھی عروج پر ہو گی۔ اپنی پارٹی کا ٹکٹ نہیں مل رہا تو راتوں رات قلابازی کھا کردوسری پارٹی کی ٹکٹ کے لیے تگ و دو شروع ہو جائے گی یا آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے اپنے روائتی حریف کے بالمقابل کھڑے ہونے کے اعلانات جائیں گے، عجیب نفسانفسی کا سماںہو گا۔
یکے بعد دیگرے سروے آنے لگے ہیںجن میں مسلم لیگ (ن) کو پہلے نمبر پر دکھایا جانے لگا۔ اقتدارکی ہوس سے سرشار بینا نگاہوں کو نظر آنے لگا کہ قرعہ فال نون لیگ کے حق میں نکل چکا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سابق ارکان جوق در جوق نون لیگ میں شمولیت کا اعلان کرنے لگے ہیں۔
برصغیر کی پارلیمانی جمہوریت میں ٹکٹ پارٹی قیادت ہی جاری کرتی ہے۔ ہمارا طرزِ حکمرانی اوپر سے نیچے آتا ہے۔ حکومت ہو یا سیاسی پارٹی، اختیار صرف اوپر والوں کے پاس ہوتا ہے۔بتدریج نیچے تابعداری اورپیروی کی جاتی ہے،حکم عدولی کرنے والوں کو زیرعتاب آنا پڑتا ہے۔ وہ اوپر والوں کی پسند ناپسنداوراُن کے مفادات کے زیرنگیں ہوتے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارے بزرگ دوست برطانیہ سے آئے ہوئے تھے۔ وہ سنانے لگے کہ ایک مرتبہ اُنہوں نے اپنے چند انگریز دوستوں کے سامنے ہمارے ہاں رائج پارٹی ٹکٹ کی تقسیم کا ذکر کیا۔ اس پر انگریز دوستوں نے کہا ’’تو کیا یہ لوگ اس ٹکٹ پر ریل یا بس یا ہوائی جہاز کا سفر کرتے ہیں؟‘‘ انہیں اس ’’ٹکٹ‘‘ کا معاملہ سمجھانا خاصامشکل ہوگیا؛تاہم کسی نہ کسی طور وہ انہیں سمجھانے میں کامیاب ہوئے جو اُن کے لئے حیران کن بات تھی۔
ہمارے مُلک کی سیاسی پارٹیاں ان کے قائدین کی جاگیریں ہیں۔ ان کے نامزد کردہ منتخب ارکان اسمبلی کی لگام ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کبھی کبھار ارکان بے لگام بھی ہو جاتے ہیں مگر راندہ درگاہ ٹھہرتے ہیں۔ انتخابات میں ووٹ ڈالتے وقت بظاہر یوں لگتا ہے کہ اقتدار نیچے سے اوپر جارہا ہے مگر حقیقتاً یہ اقتدار اوپر سے اور اوپر چلا جاتاہے۔
ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت تب آئے گی جب پارٹی کی سطح پر بھی اختیار و اقتدار حقیقی معنوں میں نیچے سے اوپر جائے گا اور پارٹی قیادت کے اختیار و اقتدار کا سرچشمہ پارٹی کارکن ہوں گے۔ ابھی تو بہت سی پارٹیوں کے ہاں پارٹی ممبران کا کوئی خاص تصور نہیں۔
صرف امیدوار کی ذات، برادری اور اس سے وابستہ مفادات کے حامل سپورٹرز کا ایک جم غفیر اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جن پارٹیوں میں پارٹی کارکن ہیں وہ صرف نعرے لگانے، جلسہ گاہیں بھرنے، جلوسوں میں گاڑیاں اور بسیں بھر کر لانے کیلئے خرکار کا کام کرتے ہیں۔
جہلم میں بھی ــ’’ ٹکٹوں کا ٹاکرا ‘‘ شروع ہونے والا ہے اس ٹاکرے میں کس کو ٹکٹ ملتا اور کس کی سیاست کے ٹکڑے ہوتے بیان کرنا قبل از وقت ہے کیونکہ ٹکٹ جاری ہونے یا کٹنے تک سب ہی ’’امید ‘‘ سے ہیں ۔جہلم کے سابقہ ٹکٹ ہولڈروں اور ٹکٹوں کے نووارامیدوار وں میں سے کس کو ٹکٹ جاری ہوتا اور کس کا ٹکٹ کٹتا ہے یہ فیصلہ بھی ’’ داتا کی نگری‘‘ میں ہونا ہے ۔
ٹکٹ کے حصول کے لیے بھی داتا کے مزار پر حاضری اور اپنے حق میں دعا ضروری ہے ۔ مگر ٹکٹوں کا حصول دعاؤں سے زیادہ ’’ دواؤں‘‘ پر بھی ہے جس کی دعا بے اثر رہی اس کی ’’ دوا‘‘ اثر ضرور دکھا جائے گی ۔اس لیے ٹکٹ کے امیدواروں کو دعا اور دوا دنوں پر انحصار کرنا ہو گا ۔
ٹکٹ جاری کرنے والوں کے پاس ایسا کوئی ترازو نہیں جس میں انکی وفاؤں اور جماعت سے ہمدردیوں کو تولا جا سکے انکے ہاں ڈیجیٹل مشینیں ہیں جو برق رفتاری کے ساتھ گنتی کرتی ہیں اور ان مشینوں میں وفائیں نہیں تلتیں بلکہ رائج الوقت کاغذ گنے جاتے ہیں۔
ن لیگ کے ٹکٹوں کے امیدواروں نے جس طرح بڑے میاں صاحب کے استقبال کے لیے تن ،من اور دھن کی بازیاں لگائی ہیں ان بازیوں سے بھی ’’ بازی ‘‘ پلٹی جا سکتی ہے ورنہ دھڑے بازی پر اکتفا کر کے مخالف کا دھڑن تختہ کرنے کی ٹھان لی جائے ۔
جہلم میں ن لیگی امیدواروں کی ایک فوج ظفر موج سب سے پہلے آپس میں ’’ ٹکٹوں‘‘ کے حصول کے لیے معرکہ آرائی کرے گی اس کے بعد انتخابی دنگل میں ایک دوسرے کو ناکوں چنے چبانے کی کوشش کرے گی ۔ ابھی تک امیدواروں کی اس فوج میں بظاہر جنگ بندی کی فضا ہے مگر چند روز بعد یہ فضا دھواں دھار ہونے کی توقع ہے ۔
جہلم کے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں میں جو درجنوں امیدوار نمودار ہوئے ہیں ان کا تعلق ن لیگ سے ہی ہے دیگر مخالف سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کے حصول کے لیے ابھی تک کوئی شوروغل نہیں، باقی جماعتیں تیل اور اس کی دھار دیکھ رہی ہیں جبکہ ن لیگ کے امیدوار ٹکٹوں کے حصول کے لیے ’’ یاتراؤں‘‘ میں مشغول ہیں، بڑے میاں صاحب آ گئے ہیں اب دیکھنا ہے کہ وہ پرانے پتوں پر اکتفا کریں گے یا نئے پتوں کی بازی لگائیں گے ۔
ایک بات اظہر المن شمس ہے کہ اگر پتوں کا چناؤ غلط ہو گیا تو گذشتہ انتخاب کی طرح آمدہ میں بھی ن لیگ کا پتا کٹ سکتا ہے۔