ضلع جہلم، مری کی پہاڑیوں،وادی سون سکیسر، سرگودھا، لاہور، قصور، شیخوپورہ، پسرور، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، اسلام آبادمیں اسٹرابیری کی کاشت میں مسلسل اضافہ ہو نے لگاہے جبکہ بعض دیگر علاقوں میں بھی اسٹرابیری کی کاشت کے بہترین نتائج حاصل ہورہے ہیں۔
جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے ماہرین اثمارنے بتایاکہ اسٹرابیری ایک پر کشش، خوبصورت اور ذائقے دار پھل ہے جو اپنی غذائی اور طبعی خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور اور جاذب نظر ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسٹرابیری کا پھل کھانے کے علاوہ جیم، جیلی، مربہ، چٹنی وغیرہ بنانے کے کام آتا ہے جس کیلئے سرد مرطوب آب و ہوا کی ضرورت ہے جبکہ سخت سردی اور سخت گرمی دونوں اس کیلئے نقصان دہ ہیں۔ اسٹرابیری کاپودا سردی کے موسم کو کسی حد تک برداشت کر لیتا ہے مگر گرمیوں میں لُو سے اس کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسٹرابیری کو پھلدار پودوں کے درمیان لگانا چاہئے نیز اسٹرابیری کی کوالٹی اور پیداوار کا انحصار زمین کی زرخیزی، اس کی گہرائی اور پانی کے بہتر نکاس پرہے اس لئے بہترپیداوار حاصل کرنے کیلئے زمین میں نامیاتی مادوں کی مناسب مقدار اور نکاس آب کا ہونا لازمی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سیم زدہ، کلر والی اور ہلکی میرا زمین میں پودے کمزور رہ جاتے ہیں، پھل کم لگتا ہے اور بیماریوں و کیڑے مکوڑوں کا حملہ بھی زیادہ ہوتا ہے اسلئے ایسی زمینوں میں اسٹرابیری کی کاشت موزوں نہیں ہے۔ عام طور پر اسٹرابیری کاشت کرنے کیلئے ساق رواں استعمال کئے جاتے ہیں کیونکہ یہ افزائش نسل کا منافع بخش اور آسان طریقہ کار ہے۔ یہ ننھے پودے آبائی پودوں کی نوڈزسے نکلتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ ایک آبائی پودے سے تقریباً15سے20ساق رواں نکلتے ہیں جن میں سے میرا زمین میں ساق رواں زیادہ مقدار میں نکلتے ہیں اور ان کی جڑیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔ اسٹرابیری کی کاشت بیج سے بھی ہوتی ہے مگر یہ طریقہ کار تجارتی(کمرشل) اعتبار سے منافع بخش نہیں ہے اور بیج سے اگائے گئے پودے صحیح النسل نہیں ہوتے۔