بول کے لب آزاد ہیں تیرے یہ گفتگو پڑھنے سننے اور صرف تنہائی میں یا پردہ داری میں کرنے کی حد تک رہ گئی ہے، آج دو مختصر تقریریں سننے کو ملیں ایک بلاول بھٹو کی اور دوسری ایک وکیل کی جو اپنے ایک ڈائیلاگ سے ایسے مقبول ہوئے کہ ان کی شہرت رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
بلاول بھٹو کی حاصل گفتگو جو صرف ایک منٹ سے بھی کم سنی یہی تھی کہ ملک پاکستان وطن عزیز میں پیارے ہم وطنوں پر حکمرانی کا حق اسے ملے جسے عوام الیکشن میں منتخب کرے اور ان کا پی ٹی آئی سے اختلاف بھی یہی رہا اور ہے۔
راقم کا کامل یقین ایمان یہی ہے کہ بے شک عزتوں کا مالک رب کعبہ ہے۔ دوسری تقریر جس کو محض دس سکینڈ ہی سنا اس دس سکینڈ میں جو انجام گفتگو ہے وہ اس ملک کے انقلاب اور پچھلے ستر سالوں کی سیاست کا منطقی انجام ہے۔ دوسری تقریر کرنے والے صاحب کا انداز گفتگو شاید سیاسی ناقدین کی اکثریت کو ناگوار گزرے گا۔
راقم کی تحریر کا حاصل شاہد ہمارے ملک کے ہر ذی شعور کی آواز ہو لیکن اس تحریر کا اثر اتنا ہی ہے جیسے کسی سمندر میں پتھر پھینک کر اس کو ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں۔ بہرحال اب وقت آ گیا ہے کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت آئے اور اگر موجود طاقتور کے سامنے وکلاء برادری تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پورے پاکستان میں کھڑے ہو گے تو پھر طاقتور بھی سپر پاور مالک کائنات کے فیصلے اور دی گئی عزت کے سامنے زیر ہو جائے گا۔
اگر یہ وکلاء اور چند علماء مشائخ مذہبی جماعت سے اور چند دیگر سیاست دان جو اپنی سیاسی بصیرت سے عوام میں مقبولیت رکھتے ہیں وہ اقتدار کے ایوانوں میں آئے تو پھر سیاسی نابلد اور سیاسی فیصلوں میں بلیک میل ہو کر ناکام ہونے والے بھی کسی سے بلیک میل نہیں ہونگے۔
اگر اسمبلیوں میں حقیقی عوامی طاقت سے وکلاء برادری آئی تو پھر وہ بھی سربراہ جماعت کو سابقہ سیاسی بے وقوفیوں سے باز رکھ سکے گے، اب وقت آ گیا کہ نہ صرف آئین کی پاسداری اور احترام کو فروغ ملنا چاہے بلکہ ہر ادارے ہر فرد کو اس کی آئینی آزادی ملنی چاہے۔
ہر پاکستانی یہ بات ماننے سے انکاری نہیں ہو سکتا کہ پی ٹی آئی پر پابندی آئندہ الیکشن کو متنازعہ بنائے گی۔ ایک بڑی جماعت کے سربراہ کا بیعانہ اور ایک وکیل کی تجویز کو اگر سریس لے لیا جائے اور ہر سیاسی مذہبی جماعت کو عوام کے فیصلے پر اقتدار کرنے کا اختیار دیا جائے تو یقین کریں اس ملک کو ترقی سے کوئی روک نہیں سکتا ۔
جس جماعت پر پابندی لگائی جا رہی ہے اس پابندی کی ٹکر میں اگر وکلاء آ گئے تو شاہد پھر ان وکلاء کے علاوہ شاید ہی کسی اور جماعت عوام کا انتخاب ہو، ہاں البتہ مذہبی جماعت، ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی علماء، پڑھے لکھے با شعور امیدوار کو میدان میں اتارے اور وکلاء کے ساتھ ساتھ یہ لوگ ہماری قانون ساز اسمبلیوں میں آئیں تو پھر شاہد ہماری آنے والی نسلوں کا معیار تعلیم بلند ہو سکے۔
شاید پھر قانون کی حکمرانی قائم ہو سکے، شاید پھر عدل و انصاف کرنے والوں کا نمبر پہلے نمبروں میں آ جائے بلکہ یقیناً علماء، مشائخ، وکلاء کمیونٹی کو اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا موقعہ ملا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب کلمہ حق پر قائم ہونے والا اسلامی جمہوریہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک آمدہ الیکشن میں ہماری آنے والی نسلوں کے معماروں کو ان کے حق میں بہتر کرے۔
راقم کی آغاز سے اختتام تک بے ہنگم تحریر کا حاصل ایسے ہی ہے جیسے ستر سالوں سے ہر الیکشن سے قبل سیاسی مشورے اور امید ہوتی ہے۔