منتخب یا نگران حکومتیں اپنے دور حکومت کو مثالی اور یادگار بنانے کے لیے مختلف اوقات میں بظاہر عوامی مفاد کے لیے مختلف پروگرامز بناتی رہتی ہیں ۔
جیسے موجودہ نگران حکومت پنجاب نے شہروں کی صفائی کے بعد دیہاتوں کو گندگی سے پاک کرنے کے لیے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے جس کا نام "اب گاؤں چمکیں گے” ۔ مروجہ طریقے کار کے مطابق چند دیہات میں جا کر فرضی صفائی کے فوٹو سیشن کر کے ارباب اختیار کو کامیاب پروگرام کی نوید سنا دی گئی ہے ۔
یاد رہے 2017 میں بھی خادم پنجاب صاف دیہات پروگرام بھی بنا تھا، جو فرضی کاروائیوں فوٹو سیشن اور خصوصی میٹنگ تک محدود رہا۔
اب گاؤں چمکیں گے۔ پروگرام کے لئے حلقہ پٹواری ، یونین کونسل کا سیکرٹری اور گاؤں کا نمبردار ہر گھر سے 50 روپے دوکان 200 روپے مارکیٹ، میرج ہال 1000 روپے جبکہ چھوٹے یونٹ فیکٹری سے 2000 روپے ماہانہ وصول کر کے اس پروگرام چلائیں گے، ہر یونین کونسل ایک لوڈر رکشہ اور تین خاکروب صفائی کے لیے مامور ہوں گے۔
اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف زمانے قدیم سے ہر دیہات میں نکاسی آب کے لیے تالاب اور مال مویشی کا گوبر، کوڑاکرکٹ کے لیے قریبی زمین میں ڈھیر لگائے جاتے تھے، تالاب سے مال مویشی و دیگر معمولات مکانات تعمیر وغیرہ کے لئے پانی استعمال کیا جاتا تھا۔
جبکہ گوبر کی وجہ سے کوڑا کرکٹ گل سڑ کر بہترین دیسی کھاد بن جاتی تھی جو زمین دار اپنی زمینوں میں بطور کھاد استعمال کرتے تھے ۔ جبکہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں پلاسٹک کے تھیلے یعنی شاپر و ڈائپرز اور گندگی کے ڈھیر نکاسی آب میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔
اس مسئلے کو حل کرنے میں تمام حکومتیں ناکام رہی ہیں کیونکہ ڈائپر اور شاپر کو تلف کرنے کا کو معقول انتظام نہیں کیا گیا ۔