مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس لوٹیں گے۔ چار برس بعد خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے کے بعد نواز شریف کی آمد پر 10 لاکھ لوگوں کو اکھٹا کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ ن پنجاب نے 21 اکتوبر تک لیگی رہنماؤں کے بیرون ممالک سفر کرنے سے روک دیا ہے اور ن لیگ کے تمام سینٹرز، ایم این ایز ،ایم پی ایز اور ٹکٹ ہولڈرز جو اسوقت بیرون ملک موجود ہیں انہیں فوری وطن واپسی کی ہدایت بھی جاری کردی ہیں۔
لیکن زمینی حقائق کے مطابق ن لیگ 10 ہزار لوگ بھی جمع کرلے تو بہت بڑی بات ہوگی کیونکہ شہباز شریف کے ڈیرہ سالہ دور حکومت میں جس طرح مہنگائی سے عوام بدحال نظر آرہے ہیں استقبال کرنا تو دور کی بات وہ نواز شریف کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے۔
شہباز شریف نے مہنگائی کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کے بیانے ووٹ کو عزت دو کا بھی جنازہ نکال دیا کیونکہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات نہ کروا کر اس بیانے کو شہباز شریف نے مکمل دفنا دیا ہے جس کے بعد بڑے میاں صاحب نے اب ایک اور انقلابی لائن پکڑ لی ہے کہ جب تک سابق سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کو ایک منتخب حکومت برطرف کرنے کی سازش رچانے کے جرم میں کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا، ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
نواز شریف کے قریبی ن لیگی رہنماؤں نے اس لائن کو عام انتخابات میں جیت کے لیے بہترین بیانہ قرار دیا۔ لیکن شہباز شریف اور اس کے دھڑے نے اس کی مکمل مخالفت کی اور آئندہ انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کا بیانیہ سابقہ ادوار کی کارکردگی کے حوالے رکھنے کا مشورہ دیا۔
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف پاکستان آئیں گے تو پھر الیکشن ہوں گے یا نہیں اور کیا تحریک انصاف بھی عام انتخابات میں حصہ لے گی یا نہیں؟ ذرائع کہتے ہیں کہ این آر او تھری تھوڑی تبدیلی کے بعد لانچنگ کے لیے تیار ہے اور تقریباً سب طے ہوچکا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے پہلے عمران سے ڈیل کرنے کی کوشش کی کہ آپ تین سال کے باہر چلے جائیں لیکن وہ ہر صورتحال سے نمٹنے اور جیل کاٹنے پر باضد رہے تو پھر انہوں نے بشری بی بی کے ذریعے اس ڈیل کو فائنل کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن عمران خان نے پھر انکار کردیا۔ جس کے بعد عمران خان کو الیکشن میں رکھنا اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری بن گئی اور انہیں اپنا پلان تبدیل کرنا پڑا۔
دوسری طرف شہباز شریف نے جو خواب اپنے آقاؤں کو دیکھائے تھے وہ پورے کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے اور پاکستان کو مزید دلدل میں دھکیل دیا۔جس کے باعث پاکستان کے حالات بد تر سے بد تر ہوگئے ۔ جب آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تو عوام سڑکوں پر نکلی اور بجلی کے بل جلائے تو پھر شہباز شریف کو لانچ کرنے والوں کو بھی ملک اور عوام کی فکر لاحق ہوئی۔
انہوں نے سمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی، حوالہ ہنڈی ، شوگر مافیا اور ڈالر مافیا کے خلاف کریک ڈاون کیا تو ڈالر اور چینی کی قیمت میں نمایاں کمی واقعی ہوئی۔ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ملوث باڈر سیکیورٹی ، کسٹم اور سیاسی مافیا کا نیٹ ورک بھی اکھاڑ کر رکھ دیا جس میں 90 سرکاری حکام اور 29 سیاست دان شامل تھے۔
مہنگائی کو کم کرنے ، ڈالر کو لگام ڈالنے اور پاکستان کی معیشت کو پٹری پر چڑھانے کے لیے چیف صاحب کو کسی نے مشورہ دیا کہ جب تک تمام سیاست دان اکھٹے نہیں ہوتے ملکی معاشی حالات میں بہتری نہیں آسکتی کیونکہ سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ اسی سلسلے میں پھر این آر او تھری تیار کیا گیا جس کے لیے انہیں نیب کے قانون کو بھی دوبارہ بحال کروانا پڑا۔ کیونکہ نواز شریف ، عمران خان کے ساتھ اور عمران خان، نواز شریف اور زرداری کے ساتھ ملکر کر چلنے کو تیار نہیں تھے۔
اب این آر او تے تھری کے مطابق نواز شریف پاکستان آئیں گے تو انہیں دوبارہ جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ جس کے چند ماہ بعد نواز اور عمران کے کیسز ختم ہوجائیں گے اور وہ عام انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات جنوری کی بجائے اپریل میں ہوں گے۔
این آر او تھری کے مطابق ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لایا جائے گا اور کچھ شرائط اور معاہدوں کے بعد ایک دائرے کے اندر رہ کر سیاست کرنے کی اجازات ہوگی تاکہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی نظریات اور معاشی مسائل پر تعمیری طریقے سے بحث کی جاسکے۔
اگر یہ ساری سیاسی قوتیں حقیقت میں پہلے ہی خلوص نیت سے یہ عہد کرلیتیں کہ انہوں نے جمہوری بالادستی قائم کرنی ہے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور رات کے اندھیروں میں گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر ملاقاتوں کی بجائے آپس میں جمہوری بالادستی کے معاہدے پر کاربند ہوجاتیں تو یہ ملک بہت پہلے ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہیں بوٹ کھانے اور چمکانے کی عادت پڑ گئی ہے۔
تحریر: میاں افتخار رامے