پچھلے ماہ کسی مدرسہ کا طالب علم میرے پاس راولپنڈی بورڈ کے میٹرک کے فارم تصدیق کروانے آیا میں نے اصل کاغذات دیکھ کر تصدیق کردی بات چیت کرنے پر پتا چلا کہ مکمل حافظ قرآن مجید ہے اور گزشتہ دو سالوں سے باقاعدہ تروایح بھی پڑھارہا ہے۔
میں نے کہا کہ حافظ قرآن تو بہت ذہین ہوتے ہیں ان کا حافظہ بھی بہت تیز ہوجاتا ہے جہاں آپ نے باقی مضامین میں فرشٹ ڈویژن لی تو پھر دو مضامین میں سپلی کیوں؟ کہنا لگا کہ سر میرے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، میں میری والدہ اور تین چھوٹی بہنیں ہیں۔ حفظ کے دوران ہی مجھے گھر کے خرچے کے لیئے محنت مزدوری کرنی پڑی۔
والد کے انتقال کے کچھ ماہ بعد تک تو سگے رشتہ داروں نے ساتھ دیا پھر وہ بھی اپنی دنیا میں مگن ہوگئے۔ والدہ نے محلے داروں کے کپڑے سینا شروع کردیئے لیکن اس سے تو گھر کا کرایہ اور بجلی کا بل ہی پورا ہوجانا غنیمت تھا۔ اس لئے ساتھ ساتھ مجھے بھی کام شروع کرنا پڑا۔ لیکن میرے ابو کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ میں حفظ القرآن مجید کے بعد سکول کی تعلیم مکمل کروں بس انھیں کی خواہش اور اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیئے اب میں بچوں کو گھروں میں قرآن مجید پڑھاتا ہوں اور الیکٹریشن کے کام سے گھر و بہنوں کی پڑھائی کا خرچہ پورا کرتا ہوں بس اس مصروفیت کی بناء پر کچھ مضامین کو وقت نہ دئے پایا اور سپلی آگئی۔
خیر وہ چلا گیا تقریباً گھنٹے بعد وہ پھر آگیا رنگ اڑا ہوا پریشان۔ میں نے کہا کہ کیا ہوا؟ بولا سر میں حبیب بینک شاندار چوک برانچ جہلم گیا تو انھوں نے کہا کہ یہاں فارم جمع نہیں ہوں گے آپ شاندار چوک پر موجود ہمارے ایجنٹ کے پاس جائیں جب میں اس فوٹو سٹیٹ کی دکان پر پہنچا تو اس نے کہا کہ فارم جمع کرنے کی اضافی فیس بھی دینی ہوگی میری جیب میں تو ایک روپیہ بھی اضافی نہ تھا مجھے یاد آیا کہ میں نے داخلے کے وقت مشین محلہ والی برانچ میں فارم جمع کروایا تھا۔
میں پیدل پھر وہاں گیا لیکن انھوں نے بھی یہ ہی کہا کہ شاندار چوک پر موجود فوٹوسٹیٹ والے کے پاس جمع کروائیں تو میں آپ کے پاس آگیا کہ اب کیا کروں۔ میں نے سو روپیہ دیا اور ایک موٹر سائیکل والے کو کہا کہ اس کے ساتھ جائیں اور اس دکان پر جمع کروا آئیں۔ وہ فارم کی فیس جمع کروا کر ڈاکخانے چلا گیا لیکن اگلے دن پھر میرے دفتر میں موجود تھا کہ سر یہ سو روپے آپ کی امانت واپس دینے آیا ہوں۔
وہ بہت مشکور تھا لیکن مجھے بہت زیادہ حیرت و غصہ تھا کہ آخر بینک والوں نے ایسا کرنا کیوں شروع کردیا لیکن بات آئی گئی ہوگئی لیکن جب راولپنڈی بورڈ کا وفد جو ہر سال انسپیکشن پر آتا ہے ان سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ بینک والوں کو جمع کرنا چاہیئے اگر نہیں کررہے تو ہم انھیں لیٹر لکھیں گے۔ لیکن جب آج ایک طالب علم کو مائیگریشن فیس جمع کروانی تھی تو مجھے وہ حافظ قرآن بچہ اور اس کی پریشانی یاد آگئی میں نے کہا کہ مجھے بھی لازمی بینک لئے جانا۔ جب بینک میں میرے ٹوکن نمبر کی باری آئی تو کیش پر موجود شخص نے کہا کہ یہ یہاں جمع نہیں ہوں گے آپ ہمارے ایجنٹ فلاں فوٹو سٹیٹ شاندار چوک پر چلےجائیں وہاں جمع ہوگا ۔
میں نے کہا کہ اس فارم پر واضح ایچ بی ایل بینک کا نام اور اکاونٹ نمبر لکھا ہوا ہے اور سالوں سال سے یہاں ہی جمع ہوتا رہا ہے تو پھر یہ ایجنٹ کہاں سے آگیا آپ مجھے لکھائی میں دئے دیں کہ یہ فیس یہاں جمع نہیں ہوگی۔ کئشیر نے کہا کہ آپ بینک منیجر سے رابطہ کرلیں ہمیں تو انھوں نے ہدایات دی ہوئی ہیں۔ جب میں بینک منیجر کے پاس گیا اور ساری روادات سامنے رکھی تو اپنی تربیت کے مطابق بہت ادب و احترام سے میری بات سننے کے بعد کہا کہ ہم بھی مجبور ہیں کہ ہمیں اوپر سے جو ہدایات آتی ہیں ان پر عمل کرنا پڑتا ہے اگر ہم یہ جمع کرلیں تو پوچھ شروع ہوجاتی ہے کہ کیوں جمع کیئے۔ غرض انھوں نے بھی اسی فوٹو سٹیٹ کا پتا سمجھایا جو کہ ہمیں حفظ ہوچکا تھا۔
جب وہاں پہنچے تو تین خواتین دو بزرگ آدمی اور دو لڑکے پہلے ہی اس تنگ سی دکان میں کھڑے تھے۔ میں بھی گھس گیا دکاندار نے جب میرے ہاتھ میں فارم دیکھے تو پوچھاکہ یہ بورڈ کے ہیں میں نے کہا جی تو اس نے دوسرے سے پوچھا ہوجائیں گے؟ اس نے موبائل دیکھ کر کہا کہ ابھی نہیں ہوسکیں گے۔ شائد بیلنس نہیں تھا اس کے اکاونٹ میں۔ میں دوبارہ بینک منیجر کے پاس گیا تو اسوقت بقول ان کے اسی موضوع پر اپنے ہیڈ آفس بات کررہے تھے۔ میں نے فوٹوسٹیٹ والے کی بات بتائی کہ اس نے کہا کہ ابھی نہیں جمع ہوسکتے تو بینک منیجر خود کاونٹر پر گئے اور جمع کروادیئے۔
آخر اگر یہ جمع ہوسکتے تھے تو پہلے ایجنٹ کے پاس کیوں بھیجا جاتا رہا آخر وہ حافظ قرآن والے جیسے کتنے ہی طالب علم جو روپیہ روپیہ اپنے خرچے سے نکال کر بورڈ کی فیسز دئے رہے ہیں انھیں مزید اور مزید خود ساختہ بوجھ تلے دبایا جارہا ہے۔ آخر کیا پاکستانی عوام صرف بوجھ تلے زندگی گزارنے ہی کے لیئے پیدا ہوئی ہے جن سے زرا زرا سی بھی سہولتیں چھین لینا ہر ایک نے اپنے اوپر فرض کیا ہوا ہے۔ کیا اوپر موجود ہر سطح پر ہر ذمہ دار ایک گدھ کی مانند عوام کو نوچ نوچ کرکھاتا رہے گا۔ شائد کسی کے لیئے پچاس سو کوئی حیثیت نہ رکھتے ہوں لیکن ان سے پوچھو جن کی جیب میں اپنے بچے کو دینے کے لیئے بسکٹ کے لیئے دس روپے بھی نہ ہوں۔