نواز شریف کی لندن سے واپسی کا غلغلہ اٹھا تو میں نے لاہور شہر کی سڑکوں پر مٹر گشت شروع کیا اور اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کتنے لوگ نواز شریف کے استقبال کے لیے مینار پاکستان جارہے ہیں۔ میرا اندازہ تھا کہ پاکستان کے دیگر شہروں میں صورتحال کچھ بھی ہو کم از کم لاہوریوں کی توجہ نواز شریف کی آمد پر نہ ہونے کے برابر ہے۔
جب پی ٹی آئی کی ریلی یا جلسہ ہوتا تھا تو لاہور کی سڑکوں پر تِل دَھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی لیکن اس دفعہ میں حیران ہوگیا کہ لاہور کی سڑکیں ویران پڑی تھیں اور ٹریفک معمول سے بہت کم تھی۔ لاہور کی سڑکوں پر مٹر گشت کے دوران مجھے کوئی ریلی یا قافلہ کسی روڈ پر نظر نہیں آیا۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ لاہویوں نے نواز شریف کو مکمل مسترد کردیا ہے۔
خیر میں آفس پہنچا تو اتنی دیر میں نواز شریف بھی لاہور لینڈ کرچکے تھے۔ نواز شریف 1433 دن کی خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے کے بعد وطن لوٹے تھے۔ لیکن میڈیا ان کی ایک ایک سیکنڈ کی کوریج ایسے کررہا تھا جسے موصوف کشمیر فتح کرکے یا ورلڈ کپ جیت کرکے آرہے ہوں ۔ میڈیا نے نواز شریف کو ایسے ہیرو بنایا ہوا تھا جیسے وہ اسرائیل کو شکست دے کر آرہے ہیں۔
نواز شریف نے21 اکتوبر کو مینار پاکستان پر اپنے پہلے جلسے میں تقریبا ایک گھنٹہ خطاب کیا اس ایک گھنٹے میں صرف ایک ہی کام کی بات کی کہ ان کا دل زخموں سے چور ہے مگر اس کے باوجود اس میں انتقام کی تمنا نہیں ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ نواز شریف کو این آر او تھری دینے والوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کے لیے چند شرائط اور اصولوں کے تحت ہی سیاست کی اجازات دی ہے جس کی جھلک آپ کو نواز شریف کے خطاب میں واضع طور پر نظر آئی۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نواز شریف امید پاکستان جہاز میں تشریف لائے ہیں تویہ ہی پاکستان کی آخری امید ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ایک بھائی ڈیڑھ سال لگا کر ملک کا بیڑا غرق کرتا ہے اور دوسرا آکر کہتا ہے کہ میں اسے ٹھیک کروں گا ویسے یہ والا مذاق میری سمجھ سے باہر ہے ۔ ذرائع کہتے ہیں کہ نواز شریف کی آمد پر پاکستان میں آنے والے اخراجات 3 ارب روپے سے زائد ہیں۔
میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ آخر میاں برداران کو اتنی بڑی رقم لگانے کی ضرورت کیا تھی تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ نواز شریف واحد بندہ ہے جو پیسے کمانے پاکستان آتا ہے باقی پاکستانی باہر جاتے ہیں۔
ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق جلسے گاہ میں 40 سے 45 ہزار لوگ موجود تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر پنجاب کے ایک ڈسٹرکٹ سے صرف پانچ ہزار لوگ بھی نکلتے تو صرف پنجاب سے 5 لاکھ سے زائد افراد ہوتے۔ اگر لاہور کی بات کی جائے تو لاہور کی آبادی ایک کروڑ 12 لاکھ ہے اور لاہور کے اردگرد کی 5 ڈسٹرکٹ کی آبادی2 کروڑ سے زائد ہے تو آپ اس سے نواز شریف کی مقبولیت اور قبولیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ شو مکمل فلاپ تھا۔ عوام کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی تقریر میں بھی دم خم نہیں تھا وہ ہی پرانی باتیں، اپنی فیملی کے قصے اور مکمل طور پر مظلوم بننے کی ناکام کوشش کی گئی۔ ایک گھنٹے کے عوامی خطاب میں کوئی روڈ میپ نہیں دیا ۔
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے پاس ملک کی تعمیر وترقی کی حزیات کیا ہے اور ان کے پاس کونسا منصوبہ ہے جس سے ملک کے حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے، ایک گھنٹے کی تقریر میں نواز شریف کے پاس سوائے رونے دھونے کے اور کچھ نہیں تھا۔
جلسے کے آخر میں نواز شریف نے ملکی ترقی کی لیے دعا بھی کروائی ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی باروزیراعظم بنے کا موقع ملے تو خود کو نگران وزیراعظم ہی سمجھیں تاکہ کم سے کم کوئی مدت تو پوری ہوسکے۔